بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسبوق کا چار رکعت والی نماز میں پانچ رکعت پڑھ لینا


سوال

 مسبوق نے چار رکعت والی نماز میں پانچ رکعت مکمل کرلی امام کے ساتھ تین رکعت پھر باقی ایک رکعت کی جگہ دو رکعت پڑھ لی، اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟یاد رہے کہ باجماعت چاررکعت فرض نماز کا وہ مسبوق تھا ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مسبوق اپنی چوتھی رکعت میں قعدہ میں بیٹھا تھا اور اس کے بعد  پانچویں رکعت کے لیے غلطی سے کھڑا ہوگیا تو اس کو چاہیے تھا کہ وہ پانچویں رکعت کا سجدہ رکرنے سے پہلے واپس قعدہ  کی طرف لوٹ آتا ، اگر اس نے سجدہ کرلیا تو اس کے ساتھ چھٹی رکعت بھی ملادیتا اور آخر میں سجدہ سہو کرلینے سے نماز ہوجاتی، چار رکعت فرض اور دو نفل ہوجاتی، لہذا اگر مسبوق نے  اپنی چوتھی رکعت پر قعدہ کیا تھا اور آخر میں سجدہ سہو کیا تھا تو اس کی نماز ہوگئی، اگر سجدہ سہو نہیں کیا تھا اس کی نماز ناقص ادا ہوئی، اس لیے  وقت کے اندر اس نماز کا اعادہ لازم تھا، اور وقت گزرنے کے بعد  اعادہ کرنا مستحب ہے، اور اگر مسبوق نے چوتھی رکعت پر قعدہ  نہیں کیا تھا اور اس کے بعد پانچویں رکعت بھی پڑھ لیں تو اس کا فرض باطل ہوگیا، اب اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے۔ 

الفتاوى الهندية (1/ 129):
’’رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج. وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لا يعود إلى القعدة ولا يسلم، بل يضيف إليها ركعةً أخرى حتى يصير شفعاً ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحساناً، كذا في الهداية. وهو المختار، كذا في الكفاية. ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط. والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح، كذا في الجوهرة النيرة ... وإن لم يقعد على رأس الرابعة حتى قام إلى الخامسة إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة عاد إلى القعدة، هكذا في المحيط. وفي الخلاصة: ويتشهد ويسلم ويسجد للسهو، كذا في التتارخانية. وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط‘‘.
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں