بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافرین کا مسجد میں دوسری جماعت کرنا


سوال

 شارعِ عام کے کنارے ایک مسجد ہے اور اس مسجد کےساتھ محلہ ہے اور اس مسجد کے لیے امام اور مؤذن متعین ہے اور جب مسافروں کی گاڑی آتی ہے تو وہ اس مسجد میں دوبارہ امامت کرتےہیں تو کیا ان کی یہ امامت صحیح ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ  مسجد جس میں  امام، مؤذن  اور نمازی معلوم ہیں، نیز  جماعت کے اوقات بھی متعین ہیں  تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ  محلے والوں کے  جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ  تحریمی ہے۔

البتہ مسافروں کو چاہیے کہ پہلے تو وہ کوشش کریں مسجد کے باہر کوئی جگہ ہو تو وہاں جماعت کرالیں، اور اگر مسجد سے باہر کوئی جگہ نہ ہو تو   جس ہئیت پر پہلی جماعت سے نماز ادا کی گئی ہے اس سے ہٹ کر مثلاً امام کی محراب والی جگہ سے ہٹ کر کسی اور جگہ کھڑے ہو کر  بغیر تداعی اور بغیر  اذان واقامت کے جماعت کرالیں تو مسافرین کے لیے اس کی گنجائش ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لا يجوز، والمجمع: لا يباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) ... والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ".  (1/ 552، کتاب الصلوٰۃ، باب الامامۃ، مطلب  فی تکرار الجماعۃ فی المسجد، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

عن أبي يوسف أنه إذا لم تكن الجماعة على الهيئة الأولى لا تكره وإلا تكره، وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة، كذا في البزازية، انتهى". (1/ 553)
بدائع الصنائع میں ہے:

"وروي عن أبي يوسف أنه إنما يكره إذا كانت الجماعة الثانية كثيرةً، فأما إذا كانوا ثلاثةً، أو أربعةً فقاموا في زاوية من زوايا المسجد وصلوا بجماعة لا يكره. وروي عن محمد أنه إنما يكره إذا كانت الثانية على سبيل التداعي والاجتماع، فأما إذا لم يكن فلا يكره". (1/ 153) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں