بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافر کے لیے قصر کے احکام کب جاری ہوں گے؟


سوال

مسافر کے لیے کہا گیا ہے کہ شہر کی آبادی کو چھوڑ چکے تو وہ راستہ میں قصر ادا کرنا شروع کر دے گا، اب مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کی آبادی کی انتہا کو کہاں سے تسلیم کیا جائے؟  سبزی منڈی سے کچھ آگے تک حقیقت میں آبادی کی انتہالگتی ہے؟ یا ٹول پلازہ  تک آبادی کی انتہا؟ یا پھر بحریہ ٹاؤن کے بعد تک؟  کیوں کہ اس بحریہ ٹاؤن کو بھی کراچی ہی کہا جاتا ہے!

جواب

اگر کوئی شخص سوا ستتر کلومیٹر  یا اس سے زیادہ دور منزل کی طرف سفر کے ارادے سے چلا ہو تو شہر کی آبادی کی حدود سے نکلنے کے بعد اس پر چا رکعت والی نماز میں قصر کرنا لازم ہوجاتا ہے، اب شہر سے باہر نکلنے سے کیا مراد ہے؟  تو اس سلسلے میں فقہاء کی عبارات میں ”عمران المصر“ اور دور المصر “ یا ”بنیان المصر“ کی تعبیر  موجود ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ  شہر کی آبادی سے باہر نکلنے کے بعد سفر کے احکامات جاری ہوں گے،  لہذا  جہاں شہر کی آبادی ختم ہوتی نظر آئے وہیں سے سفر کے احکام جاری ہوں گے۔ ’’بحریہ ٹاؤن‘‘  کراچی کی مسلسل آبادی کے ختم ہونے کے بعد فاصلے پر ہے، اس لیے محیط برہانی اور فتاویٰ ہندیہ کی درج ذیل عبارات کی روشنی میں اس سے پہلے جہاں آبادی ختم ہوجاتی ہے، وہیں سے قصر کے احکام شروع ہوجائیں گے۔

المبسوط للسرخسي (1/ 236) :

"فإذا قصد مسيرة ثلاثة أيام قصر الصلاة حين تخلف عمران المصر؛ لأنه مادام في المصر فهو ناوي السفر لا مسافر، فإذا جاوز عمران المصر صار مسافراً؛ لاقتران النية بعمل السفر".

بدائع الصنائع (1/ 93) :

"وأما بيان ما يصير به المقيم مسافراً: فالذي يصير المقيم به مسافراً نية مدة السفر والخروج من عمران المصر فلا بد من اعتبار ثلاثة أشياء: ... والثالث: الخروج من عمران المصر فلايصير مسافراً بمجرد نية السفر ما لم يخرج من عمران المصر".

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 24) :

"قال محمد رحمه الله: ويقصر حين يخرج من مصره ويخلف دور المصر، وفي موضع آخر يقول: ويقصر إذا جاوز عمرانات المصر قاصداً مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، وهذا لأنه ما دام في عمران المصر فهو لايعد مسافراً، والأصل في ذلك ما روي عن علي رضي الله عنه أنه خرج من البصرة يريد السفر فحان وقت العصر فأتمها ثم نظر إلى خص أمامه، فقال: إنا لو كنا جاوزنا هذا الخص قصرنا، وهكذا إن كانت المحلة منفصلةً من المصر وكانت قبل ذلك متصلة بالمصر فإنه لايقصر حتى يجاوز تلك المتصلة ويخلف دورها؛ لأن تلك المحلة من المصر بخلاف القرية؛ لأن تلك القرية لاتكون من المصر وربما تكون من القرى وربما يترادف القرى ويتعارف المصر إلى فرسخ أو فرسخين المصر، فلو نهى عن القصر حتى يجوز القرية التي ... المصر لنهي عن القصر في هذه القرى أيضاً، وهذا بعيد فعرفنا أن الشرط أن يتخلف عن عمران المصر، وبنيانه لا غير".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  (ص: 423) :

"يقصر بخروجه عن عمران المصر ولايلحق فناء المصر بالمصر في حق السفر ويلحق الفناء بالمصر لصحة صلاة".

الفتاوى الهندية (1/ 139) :

"قال محمد - رحمه الله تعالى -: يقصر حين يخرج من مصره ويخلف دور المصر، كذا في المحيط. وفي الغياثية: هو المختار، وعليه الفتوى، كذا في التتارخانية. الصحيح ما ذكر أنه يعتبر مجاوزة عمران المصر لا غير إلا إذا كان ثمة قرية أو قرى متصلة بربض المصر فحينئذ تعتبر مجاوزة القرى بخلاف القرية التي تكون متصلةً بفناء المصر فإنه يقصر الصلاة وإن لم يجاوز تلك القرية، كذا في المحيط". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں