گزشتہ سال ایک آدمی نے سفر کیا اپنی بہن کے گھر، جو اس کے گھر سے 140کلو میٹر دور ہے، سفر میں تو اس نے روزہ رکھا، مگر پھر وہاں 9 دن قیام کیا اور کہا میں مسافر ہوں، مسافر سے روزہ معاف ہے، بعد میں رکھوں گا، اب وہ کہہ رہا کہ میرا یہ عمل کس زمرے میں آتا ہے اور کیا میں نے صحیح کیا یا غلط؟ اگر غلط ہے تو تلافی کی صورت کیا ہوگی؟
واضح رہے کہ مسافرِ شرعی جب تک کسی مقام پر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت سے اقامت اختیار نہیں کرتا ، روزہ رکھنے نہ رکھنے میں اسے اختیار ہے، البتہ روزہ رکھنا افضل ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر روزہ رکھنا مذکورہ شخص کے لیے باعثِ مشقت نہ تھا تو روزہ رکھنا افضل تھا، تاہم شریعت کی جانب سے رخصت ملنے کی وجہ سے سفر میں روزہ نہ رکھنے پر کوئی گناہ لازم نہیں آیا۔
باقی ان روزوں کی قضا ضروری ہے، جس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لمسافر سفراً شرعياً ... الفطر؛ و في رد المحتار: قوله: سفراً شرعياً أي مقدار في الشرع لقصر الصلاة و نحوه هو ثلاثة أيام و لياليها ... و يندب لمسافر الصوم لآية: و أن تصوموا.. و الخير بمعني البر لا أفعل تفضيل، إن لم يضره فإن شق عليه أو علي رفيقه فالفطر أفضل لموفقته الجماعة". (٢/ ٤٢١- ٤٢٣) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200620
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن