بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مساجد ، مدارس اور ڈیم تعمیر کرنے کے لیے قربانی کی کھال دینا


سوال

کیا قربانی کی کھالیں مسجد یا مدرسہ یا  ڈیم کی تعمیر میں دینا جائز ہے یا ناجائز  ہے؟

جواب

قربانی کی کھال جب تک  فروخت نہ کی جائے قربانی کرنے والے کو اس میں تین قسم کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں: (1) خود استعمال کرنا۔ (2) کسی کو ہدیہ کے طور پر دینا۔ (3) فقراء اور مساکین پر صدقہ کرنا۔

تاہم اگر قربانی کی کھال ، قربانی کرنے والا یا اس کا وکیل نقد رقم یا کسی چیز کےعوض فروخت کردے  تو اس کی قیمت  صدقہ کرنا واجب ہے، اور کھال کی قیمت کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے، اور زکاۃ میں تملیک شرط ہے ، اسے تعمیراتی کام میں لگانا درست نہیں ہے۔

قربانی  کرنے والا جب اپنے جانور کی کھال کسی ادارے کو دیتا ہے تو اس ادارے کے نمائندے اس قربانی کرنے والے کے وکیل بن جاتے ہیں، اور  ان پر لازم ہے کہ وہ  اس کو فروخت کرکے قربانی کرنے  والے کی طرف سے  اس کھال کی قیمت کو مستحقِ زکاۃ لوگوں کو  دے دیں ، اس کھال کی رقم سے تعمیراتی کام کرانا درست نہیں ہے.

لہذا جب ڈیم بنانے کے لیے  یا مدرسہ یا مسجد  میں  کھال دی جائے  تو جن کو دی وہ وکیل ہوں گے اور وہ اسے فروخت کریں گے تو  رقم مستحق زکاۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہوجائے گا، اور اس صدقہ کا مصرف وہی زکات والا ہے .مساجد اور ڈیم میں چوں کہ مستحق زکاۃ کو مالک بنانا نہیں پایا جاتا، اس لیے وہاں کھال نہ دی جائے،  البتہ مدارس میں چوں کہ مستحق زکاۃ  طلبہ ہوتے ہیں اس لیے مدارس میں کھال دی جاسکتی ہے۔

باقی ڈیم فنڈ میں دیگر نفلی صدقات وعطیہ سے تعاون کرلینا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں