بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مزدور کا گرمی کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا


سوال

 اگر کوئی مزدور آدمی اس گرمی میں روزہ نہ رکھ سکے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ اس روزے کی قضا کیا دے گا، سردیوں میں روز لوٹائے  گا یا پھر کچھ فدیہ دے کر قضا ادا ہوسکتی ہیں روزے کی؟

جواب

رمضان المبارک میں گرمی میں معاشی محنت کرنے کی وجہ سے روزہ چھوڑدینا جائز نہیں ہے،  بلکہ  مناسب یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ایسے سخت محنت کے کام نہ کیے جائیں  جن کی وجہ سے روزوں کی قضا کی نوبت آئے، اور  جن لوگوں کے ماتحت ملازمین کام کرتے ہیں انہیں بھی چاہیے کہ وہ رمضان المبارک میں ملازمین سے سخت کام نہ کرائیں اور ان کے کام میں تخفیف کردیں ،اس کی حدیث مبارکہ میں بڑی فضیلت آئی ہے۔

لہٰذا اگر معاشی ضرورت کی وجہ سے رمضان میں مزدوری کرے اور مالک اس سلسلے میں تخفیف نہ کرے تو بھی مزدور روزہ رکھے، پھر اگر روزے میں پیاس کی شدت کی وجہ سے مزدور کی ایسی حالت ہوجائے کہ اس کو ہلاکت کا یقین یا غالب گمان ہوتو اسے روزہ توڑدینے کی اجازت ہوگی،  اور اس روزے کی قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔ اور اگر مزدور نے شروع ہی روزہ نہ رکھا تو گناہ گار ہوگا،  توبہ واستغفار لازم ہوگا، اور بعد میں اس روزے کی قضا لازم ہوگی، فدیہ ادا کرنا کافی نہیں ہوگا۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:
'' لا يجوز أن يعمل عملاً يصل به إلى الضعف، فيخبز نصف النهار ويستريح الباقي، فإن قال: لا يكفيني، كذب بأقصر أيام الشتاء، فإن أجهد الحر نفسه بالعمل حتى مرض فأفطر ففي كفارته قولان، قنية''۔

''(قوله: لا يجوز إلخ) عزاه في البحر إلى القنية. وقال في التتارخانية: وفي الفتاوى سئل علي بن أحمد عن المحترف إذا كان يعلم أنه لو اشتغل بحرفته يلحقه مرض يبيح الفطر، وهو محتاج للنفقة هل يباح له الأكل قبل أن يمرض؟ فمنع من ذلك أشد المنع، وهكذا حكاه عن أستاذه الوبري، وفيها: سألت أبا حامد عن خباز يضعف في آخر النهار هل له أن يعمل هذا العمل؟ قال: لا ولكن يخبز نصف النهار ويستريح في الباقي، فإن قال: لا يكفيه، كذب بأيام الشتاء؛ فإنها أقصر فما يفعله اليوم اهـ ملخصاً.
(قوله: فإن أجهد الحر إلخ) قال في الوهبانية: فإن أجهد الإنسان بالشغل نفسه فأفطر في التكفير قولين سطروا، قال الشرنبلالي: صورته: صائم أتعب نفسه في عمل حتى أجهده العطش فأفطر لزمته الكفارة، وقيل: لا، وبه  أفتى البقالي''۔ 
(2/ 420،  کتاب الصوم، ط: سعید)۔ فقط واللہ اعلم

 

 


فتوی نمبر : 143908201093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں