بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرکب نام رکھنا


سوال

ہمارے ہاں عام طور پہ لڑکوں کے نام سے پہلے ’’محمد‘‘  لگایا جاتا ہے اور آگے والد کا نام نہیں لگاتے، مثلاً:  " محمد بلال" اور لڑکیوں کے نام کے آگے والد کا نام لگایا جاتا ہے، مثلاً: " فاطمہ آصف" ۔معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس طرح نام رکھنا درست ہے؟  اگر ہاں تو کیا ہر نام سے پہلے ’’محمد‘‘  لگایا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو والد کا نام لگانے کا حکم جہاں آیا ہے اس کی نشان دہی فرمادیں۔ نیز یہ بھی بتا دیں اگر ایسے نام رکھنا درست ہے تو ’’محمد احمد‘‘  نام رکھنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جیسے مفرد نام (ایک لفظ والا نام) رکھنا جائز ہے ایسے ہی مرکب نام (ایک سے زائد الفاظ پر مشتمل نام ) رکھنا بھی جائز ہے،  جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں محمد اکبر، محمد اوسط اور محمد اصغر نام کے بیٹے بھی تھے  (۱)۔ البتہ مفرد نام رکھنا زیادہ بہتر ہے؛ کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی اولاد کا مفرد نام رکھا تھا۔(۲) تاہم اگر برکت کے حصول کے لیے نام کے شروع یا آخر میں ’’محمد‘‘ یا ’’احمد‘‘ بڑھایا جائے تو یہ مستحسن ہے۔ 

مرکب نام رکھنے میں مختلف لوگوں کے پیشِ نظر  مختلف مقاصد ہوتے ہیں، مثلاً:  بعض اوقات بچے کے والد کی طرف نسبت کرنا مقصود ہوتا ہے، کبھی خاندان کی طرف نسبت کرنا مقصود ہوتا ہے، کبھی نام کے شروع میں ’’محمد‘‘  یا نام کے آخر میں ’’احمد‘‘  لگا کر برکت حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے، کبھی اولاد میں تمییز کرنے کی خاطر دوسرا لفظ بڑھانا مقصود ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کا بیٹوں  میں تمییز کرنے کے لیے ’’اکبر، اوسط اور اصغر‘‘  کےا لفاظ بڑھانا اور ان تمام مذکورہ مقاصد یا ان جیسے مقاصد میں سے کسی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مرکب نام رکھنا جائز ہے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد سائل کے سوالوں کا جواب یہ ہے کہ لڑکوں کے نام سے پہلے ’’محمد‘‘ لگانا جائز ہے۔

لڑکیوں کے نام کے آگے  والد کا نام لگانا بھی جائز ہے۔

 لڑکوں کے ہر جائز نام (جس کے معنی میں کوئی خرابی نہ ہو) سے پہلے ’’محمد‘‘  لگایا جاسکتا ہے، بلکہ باعثِ بر کت بھی ہے۔(۳)

 اصل نام میں والد کا نام شامل کرنے کا حکم تو کسی نص میں نہیں ہے، البتہ  صلہ  رحمی کرنا اور میراث کی تقسیم میں حق دار تک حق پہنچانا اور اس جیسی دینی و دنیوی مصلحتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعارف کے لیے اپنے حقیقی باپ کی طرف نسبت کرنے کا حکم قرآنِ پاک (۴)اور احادیثِ مبارکہ(۵) میں موجود ہے۔

’’محمد احمد‘‘  نام رکھنا بھی درست ہے۔ فقط واللہ اعلم

حوالہ جات:

(۱)          "عَلِيّ بْن أَبِي طَالِب. رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

وكان له من الولد الحسن والحسين وزينب الكبرى وأم كلثوم الكبرى. وأمهم فاطمة بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ومحمد بن علي الأكبر وهو ابن الحنفيةومحمد الأصغر بن علي قتل مع الحسين. وأمه أم ولدومحمد الأوسط بن علي وأمه أمامة بنت أبي العاص بن الربيع بن عبد العزى بن عبد شمس بن عبد مناف". (الطبقات الكبرى، ۳/۱۳، دار الکتب العلمیة)

"الفصل الثاني عشر: في ذكر ولدهو"محمد الأكبر" أمه خولة بنت إياس بن جعفر الحنفيةو"محمد الأصغر" قتل مع الحسين أيضًا، أمه أم ولدومحمد الأوسط أمه بنت أبي العاص".(الرياض النضرة في مناقب العشرة للطبری، ۳/۲۳۹، دار الکتب العلمیة)

(۲)          "ويجوز التسمية بأكثر من اسم واحد، والاقتصار على اسم واحد أولى، لفعله صلّى الله عليه وسلم بأولاده". (الفقه الإسلامي وأدلته، ۳/۶۴۳، دار الفکر)

(۳)          من ولد له مولود فسماه محمدًا تبركًا به؛ كان هو ومولوده في الجنة". رواه ابن عساكر عن أبي أمامة رفعه، قال السيوطي في "مختصر الموضوعات": هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب، وإسناده حسن". (كشف الخفاء للعجلوني، ۲/۳۴۲، المکتبۃ العصریة)

(۴)          {اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ} [ الأحزاب:۵]

ترجمہ : پکارو لے پالکوں کو ان کے باپ کی طرف نسبت کر کے یہی پورا انصاف ہے.  (ترجمہ از معارف القرآن)

(۵)          "عن عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم: أن أبا حذيفة، وكان ممن شهد بدراً مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، تبنى سالماً، وأنكحه بنت أخيه هند بنت الوليد بن عتبة، وهو مولى لامرأة من الأنصار، كما «تبنى رسول الله صلى الله عليه وسلم زيداً» وكان من تبنى رجلاً في الجاهلية دعاه الناس إليه وورث من ميراثه، حتى أنزل الله تعالى: {ادعوهم لآبائهم} [الأحزاب: 5] (صحيح البخاري، ۵/۸۱، دار طوق النجاة)

ترجمہ :حضرت عائشہؓ زوجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابوحذیفہؓ نے جو بدر میں شریک تھے سالم کو جو کہ ایک انصاریہ عورت کے غلام تھے، اپنا بیٹا بنا کر اپنی بھتیجی یعنی ہندہ ولید بن عتبہ کی بیٹی سے اس کا نکاح کردیا تھا جس طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ اور جاہلیت کے زمانہ میں یہ رسم تھی کہ جب کوئی کسی کو اپنا بیٹا بنا لیتا تو وہ اسی کے نام سے پکارا جاتا اور اس کے مال کا وارث ہوتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَا ئِهِمْ ) 33۔ الأحزاب : 5) کہ تم ان کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008202009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں