بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ کھیلوں کو پیشہ بنانا


سوال

کرکٹ، فٹ بال، والی بال وغیرہ کھیل کو پیشہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟ اور ایسے کھلاڑیوں کی  آمدنی حلال ہے یاحرام؟

جواب

دینِ اسلام کھیل اور تفریح سے مطلقاً منع نہیں کرتا، بلکہ اچھی اور صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، چناچہ بعض کھیل ایسے ہیں جن کی اجازت خود نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے، جیساکہ سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، ومنبله. وارموا، واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا. ليس من اللهو إلا ثلاث: تأديب الرجل فرسه، وملاعبته أهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه، فإنها نعمة تركها، « أو قال:» كفرها". (1/363، کتاب الجهاد، ط: رحمانیه)

مذکورہ حدیث میں تین کھیلوں کو لہو لعب سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، کیوں کہ ”لہو “ تو اس کام کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو ، جب کہ یہ تینوں مفید کام ہیں جن سے بہت سے دینی اور دنیوی فوائد وابستہ ہیں ، تیراندازی اور گھوڑے کو سدہانا تو جہاد کی تیاری میں داخل ہے اور بیوی کے ساتھ ملاعبت توالد و تناسل کے مقصد کی تکمیل ہے.

 چناچہ فقہاءِ کرام نے ذخیرہ احادیث کو سامنے رکھ کر چند اصول مرتب کیے ہیں ، جن پر غور کرنے سے موجودہ زمانے کے تمام کھیلوں کا حکم معلوم ہوجاتا ہے، وہ اصول درج ذیل ہیں:

1۔۔ وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ) ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل به ألهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه".(تکملہ فتح المہم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط: دارالعلوم کراچی)

ان اصولوں کی رو سے موجودہ دور کے اکثر و بیشتر کھیل ناجائز اور غلط نظر آتے ہیں، اس لیے کہ بعض کھیل تو ایسے ہیں کہ جن میں ایسے لباس کا انتخاب کیا جاتا ہے جس سےانسان کے اعضاءِ مستورہ نظر آتے ہیں، اور بعض ایسے ہیں جس سے اعضاء مستورہ کا حجم نمایاں ہوتا ہے، بعض ایسے ہیں جن میں قمار اور جوا پایا جاتا ہے، اور بعض میں مرد وعورت کا اختلاط ہوتا ہے، بعض ایسے ہیں جن میں نہ کوئی دینی منفعت ہوتی ہے اور نہ ہی دنیوی، مزید یہ کہ جیسے ہی ان کھیلوں کا زمانہ آتا ہے ، کھیل کے شوقین حضرات اپنے شرعی فرائض چھوڑ کر اسی میں مشغول ہوجاتے ہیں ، کھیل کا ایسا ذوق پیدا کردیا گیا ہے کہ گویا ہمارے نوجوان صرف کھیلنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ، کھیل ہی کو زندگی کا بنیادی مقصد بنادیا گیا ہے، اور اب تو حالت یہ ہوچکی ہے کہ ہر ملک میں مردوں کی طرح خواتین کوبھی کھیل کے میدان میں مردانگی دکھانے کے لیے لایا گیا ہے، پھر میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں ان کی تشہیر،اور نشر واشاعت کرکے نسوانیت کی اہانت اور تذلیل کی جارہی ہے،گویا پوری قوم کھیل کے لیے پیدا ہوئی ، اور اس کھیل ہی کو پوری زندگی کا اہم ترین کارنامہ فرض کرلیا گیا ہے، کھیل کا ایسا مشغلہ تو مردوں کے لیے بھی جائر نہیں ، چہ جائے کہ عورتوں کے لیے جائز ہو۔ ارشادِ باری تعالی ہے: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ } [لقمان: 6] روح المعانی میں ہے: "ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها".(تفسیر آلوسیؒ (11 / 66)، سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیہ)

حاصل یہ ہے کہ اگر سوال میں مذکورہ کھیلوں میں مذکورہ خرابیاں پائی جائیں یعنی اس میں مشغول ہوکر شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً فٹ بال میں غیر ساترلباس کا استعمال (جس میں ستر کا حصہ ظاہر ہو)،  یا مردوں اور عورتوں کا اختلاط ، موسیقی اور جوا وغیرہ یا تصویر سازی ہو یا اسے محض لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو یہ جائز نہیں ہے ۔ البتہ اگر اس میں مذکورہ خرابیاں نہ پائی جائیں، بلکہ اسے بدن کی ورزش ، صحت اور تن درستی باقی رکھنے کے لیے یا کم از کم طبعیت کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کھیلا جائے، اور اس میں غلو نہ کیا جائے ، اسی کو مشغلہ نہ بنایا جائے، اور ضروری کاموں میں اس سے حرج نہ پڑے اور لباس بھی ساترہو تو پھر جسمانی ورزش کی حد تک مذکورہ کھیل کھیلنے کی گنجائش ہوگی۔

باقی کسی ٹیم میں کھیلنے والے کھلاڑی اگر کسی کمپنی کے ملازم ہیں (مثلاً پی آئی اے وغیرہ) اور کھیل کے زمانہ میں یہ ملازم اپنے ادارے کی طرف سے کھیلنے جاتے ہیں اور کمپنی انہیں ملازم ہونے کی حیثیت سے اجرت دیتی ہے توان کے لیے اجرت وصول کرنا جائز ہے۔ اور اگر یہ کھلاڑی کسی کمپنی کے ملازم نہیں ہیں، بلکہ کھیل ہی کو ذریعہ معاش بنایا ہوا ہے، اور کھیل ہی کی اجرت لیتے ہیں تو ایسی صورت میں ان کی تنخواہیں جائز نہیں ہیں۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 384):

" لايجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي)؛ لأن المعصية لايتصور استحقاقها بالعقد فلايجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لايحل له ويجب عليه رده على صاحبه. وفي المحيط: إذا أخذ المال من غير شرط يباح له؛ لأنه عن طوع من غير عقد. وفي شرح الكافي: لايجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيء من اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك. وفي الولوالجي: رجل استأجر رجلاً ليضرب له الطبل إن كان للهو لايجوز، وإن كان للغزو أو القافلة أو العرس يجوز؛ لأنه مباح فيها".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200978

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں