بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ اسلامی بنکوں سے جواز کے فتوے کی روشنی میں وابستہ رہنے کا حکم


سوال

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: پچھلے چھ سالوں سے "بینک اسلامی "کے ساتھ کام کررہاہوں ، مختلف عزت مآب مفتیان کرام کے اسلامی بینکاری کے جواز کے فتووں کی روشنی میں اس بینک کی نوکری کو حلال سمجھ کر اب تک اس سے منسلک ہوں ، لیکن جب میں نے جنگ اخبار  ۹ مارچ  ۲۰۱۷ کے ایک کالم  نگار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کالم "اسلامی بنکاری، علماء کرام سے دردمندانہ  گزارش" پڑھا تو مختلف نوعیت کے سوالات نے جنم لیا،  بالخصوص بینک اسلامی کا KASB  بنک جو کہ ایک سودی بینک  ہے کا خریدنا  اور مزید یہ کہ سالانہ آڈٹ رپورٹ جس میں غیر اسلامی فیصلے ہیں پر مفتیان کرام اور علماء کرام کی خاموشی تشویش ناک ہے ۔

نیز اس سال میرا حج کا بھی ارداہ ہے ، کیا میں اس رقم سے حج کے لیے جاسکتا ہوں؟ آپ حضرات  سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ ان تمام مسائل پر توجہ ڈالیں۔   

جواب

مروجہ اسلامی بینکاری کے متعلق ہمارے دارالافتاء اور ملک کے دیگر معتمد اہل افتاء کی جانب سےعدم جواز کا موقف اس وقت سے چلا آرہا ہےجب سے اسلام کی طرف منسوب بینکاری کا سلسلہ شروع ہواہے۔ ڈاکٹر شاہد حسن صاحب کے  محولہ بالاکالم سے  بہت پہلے جامعہ علوم اسلامیہ  ملک کے دیگر کئی معتمد ومعتبر اہل افتاء کی تائید کے ساتھ مروجہ اسلامی بنکاری کے عدم جواز کا مدلل اور تفصیلی فتوی کتابی شکل میں شائع کرچکی ہے، جس میں ان خدشات کی نشان دہی کی جاچکی تھی جو آج حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔

بہر کیف مروجہ اسلامی بینکوں کا طریقۂ تمویل چوں کہ جمہور اہلِ فتویٰ کے نزدیک اسلامی اور غیر سودی نہیں ہے، بلکہ کئی سودی اور غیری اسلامی معاملات پر مشتمل ہے؛ اس لیے ایسے اداروں میں ملازمت اختیار کرنا بھی شرعاً جائز نہیں ہو سکتا، اور اس کی تنخواہ بھی حلال نہیں ہو سکتی.

لہٰذا  آپ ایسے بینک سے فوراً علیحدہ ہو نے کی بھر پور کوشش کریں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو اس کے تقویٰ و خشیت کی وجہ سے کسی غلط کام سے باز آتا ہے تو اس کے لیےبہتری و بھلائی کے راستے میسر آجاتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ ایک بے روزگار کی حیثیت سےمتبادل ملازمت کے لیے کو شش کرتے رہیں، جوں ہی جائز ملازمت میسر آجائے بینک کی ملازمت فوراً چھوڑ دیں، جب تک نوکری نہیں مل پاتی، اور آپ کے لیے چھوڑنا مشکل ہو اور آپ کا کوئی ذریعہ معاش بھی نہ ہو تو ناجائز سمجھتے ہوئے مذکورہ بینک سے ملازمت و معاوضہ کا تعلق رکھنے کی گنجائش ہے، مگر ساتھ ہی تو بہ و استغفار بھی کرتے رہیں اور استطاعت ہونے پر اس عرصہ میں بینک سے حاصل شدہ مراعات کے بقدر صدقہ بھی کردیں۔ امید ہے اللہ تعالیٰ بخشش فرمادیں گے۔

جہاں تک حج کا سوال ہے توحج پاک اورخالص حلال آمدنی سے کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 143806200012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں