بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کے لیےچاندی کی انگوٹھی پہننا


سوال

مرد کے لیےچاندی کی انگوٹھی پہننا کیسا ہے؟ اور شرعی لحاظ سے کس ہاتھ میں پہنی جائے دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں؟

جواب

ایک مثقال  سے کم  وزن چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے حلال اور جائز ہے۔ایک مثقال  ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) ہوتا ہے۔

  دونوں ہاتھوں  میں پہننا جائز ہے۔رسول اللہ ﷺ سے دونوں عمل ثابت ہیں۔البتہ عام آدمی کے لیے انگوٹھی نہ پہننا بہتر اور افضل ہے۔

'' عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَ خَاتَمُ النَّبِیِّ ﷺ فِیْ هٰذِه وَأَشَارَ إِلٰی الْخِنْصَرِ مِنْ یَدِهِ الْیُسْرٰی'' ۔ (مسلم)
حضرت انس  کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی اس (انگلی) میں ہوتی تھی ، اور اپنے بائیں ہاتھ کی چھنگلی کی طرف اشارہ کیا۔
'' عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ ﷺ کَانَ یَتَخَتَّمُ فِيْ یَمِیْنِه، ثُمَّ حَوَّلَه فِيْ یَسَارِه '' ۔  (ابن عدی)
حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (پہلے) اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے، پھر آپ نے اس کو (اپنے بائیں ) ہاتھ میں بدل لیا (یعنی اس میں پہننے لگے) 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358)

'' (ولا يتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة ۔۔۔ (ولا يتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ۔۔۔ ولا يزيده على مثقال۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/361)

(وَتَرْكُ التَّخَتُّمِ لِغَيْرِ السُّلْطَانِ وَالْقَاضِي) وَذِي حَاجَةٍ إلَيْهِ كَمُتَوَلٍّ (أَفْضَلُ)۔۔۔
(قَوْلُهُ فِي يَدِهِ الْيُسْرَى) وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي خِنْصَرِهَا دُونَ سَائِرِ أَصَابِعِهِ، وَدُونَ الْيُمْنَى، ذَخِيرَةٌ، (قَوْلُهُ: فَيَجِبُ التَّحَرُّزُ عَنْهُ) عِبَارَةُ الْقُهُسْتَانِيِّ عَنْ الْمُحِيطِ: جَازَ أَنْ يَجْعَلَهُ فِي الْيُمْنَى إلَّا أَنَّهُ شِعَارُ الرَّوَافِضِ اهـ وَنَحْوُهُ فِي الذَّخِيرَةِ، تَأَمَّلْ۔ (قَوْلُهُ: وَلَعَلَّهُ كَانَ وَبَانَ) أَيْ كَانَ ذَلِكَ مِنْ شِعَارِهِمْ فِي الزَّمَنِ السَّابِقِ، ثُمَّ انْفَصَلَ وَانْقَطَعَ فِي هَذِهِ الْأَزْمَانِ، فَلَا يُنْهَى عَنْهُ كَيْفَمَا كَانَ. وَفِي غَايَةِ الْبَيَانِ قَدْ سَوَّى الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ فِي شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ بَيْنَ الْيَمِينِ وَالْيَسَارِ، وَهُوَ الْحَقُّ۔(وترک التختم اهـ) وفي البستان عن بعض التابعین: لا یتختم إلا ثلاثة: أمیر أو کاتب أو أحمق اهـ․ (فتاوی شامي: ۵/۲۳۱)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201669

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں