میرے والد ۳۵ سال پہلے فوت ہو چکے ہیں، انہوں نے باقاعدہ وصیت تو نہیں کی تھی، البتہ ان کی حج کی خواہش ضرور تھی، لیکن وہ جوانی ہی میں فوت ہو گئے، ہمیں معلوم نہیں کہ ان پر حج واجب تھا، والد کی طرف سے حجِ بدل کرنا چاہتا ہوں، میں نے حج کیا ہوا ہے، وراثت میں ایک گھر اور ایک پلاٹ ( ایک کنال کا ) چھوڑ کر گئے تھے، فیکٹری کی طرف سے فوتگی کے بعد ایک لاکھ روپے والدہ کو ادا کیے گئے تھے، والدہ بھی فوت ہو چکی ہیں۔
حج ایسے شخص پر فرض ہوتا ہے جس کے پاس ضروریات اور قرض کے علاوہ اتنی رقم موجود ہو جس سے حج پر جانے اور آنے کے اخراجات پورے ہو سکتے ہوں اور واپس آنے تک گھر کے اہل و عیال کا خرچہ بھی موجود ہو ۔
لہذا اگر آپ کے والد کے پاس اتنی رقم تھی تو آپ کے والد پر حج فرض تھا، اب اگر آپ ان کی طرف سے حجِ بدل کرنا چاہتے ہیں تو حجِ بدل کر سکتے ہیں، لیکن یہ حج اپنے ذاتی مال سے کرنا ہو گا، اور اگر ترکہ کے مال سے کرنا چاہتے ہیں تو تمام بالغ ورثاء کی دلی رضامندی ضروری ہو گی۔
الفتاوى الهندية (1/ 258)
[الباب الخامس عشر في الوصية بالحج]
(الباب الخامس عشر في الوصية بالحج) من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف وإن أحب الوارث أن يحج عنه حج وأرجو أن يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى، كذا ذكر أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -.فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200249
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن