بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ  میں دفن ہونے کی تمنا کرنا کیسا ہے؟


سوال

مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ  میں دفن ہونے کی تمنا کرنا کیسا ہے؟

جواب

احادیثِ مبارکہ میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بے شمارفضائل وارد ہوئے ہیں، جن کے لیے محدثینِ کرام نے مستقل ابواب قائم فرمائے ہیں۔ان دونوں مقاماتِ مقدسہ میں رہنا اور وہاں موت کا آجانابلاشبہ ایک مسلمان کے لیے باعثِ سعادت ہے، لہذا مکہ مکرمہ یامدینہ منورہ میں دفن ہونے کی تمنا اور دعاکرنا درست ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگان دین سےثابت ہے۔

ترمذی شریف کی روایت میں ہے:
"عن نافع عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من استطاع أن يموت بالمدينة فليمت بها؛ فإني أشفع لمن يموت بها".

ترجمہ:"حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :  جس سے ہو سکے کہ مدینہ منورہ میں مرے تو وہیں مرنے کی کوشش کرے؛ کیوں کہ جو یہاں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا"۔

صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے:

"عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ صلى الله عليه وسلم".

ترجمہ: "زید بن اسلم اپنے والد سے وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے دعا کی: یا اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما، اور مجھے اپنے رسول ﷺ کے شہر میں موت دے"۔

مسلم شریف کی روایت میں ہے :

"عن أبى سعيد مولى المهرى أنه جاء أبا سعيد الخدري ليالي الحرة، فاستشاره فى الجلاء من المدينة وشكا إليه أسعارها وكثرة عياله وأخبره أن لا صبر له على جهد المدينة ولاوائها، فقال له: ويحك! لا آمرك بذلك إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول :لايصبر أحد على لأوائها فيموت إلا كنت له شفيعاً أو شهيداً يوم القيامة إذا كان مسلماً".

ترجمہ:"حضرت ابوسعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ وہ (واقعہ )حرہ کی رات میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے مدینہ سے واپس چلے جانے کے بارے میں مشورہ طلب کیا اور شکایت کی کہ مدینہ میں مہنگائی بہت ہے اور ان کے عیال دار بال بچے زیادہ ہیں اور میں مدینہ کی مشقت اور اس کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرسکتا تو حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے کہا کہ تجھ پر افسوس ہے! میں تجھے اس کا حکم (مشورہ) نہیں دوں گا؛ کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : جو آدمی مدینہ کی تکلیفوں پر صبر کرے اور اسی حال میں اس کی موت آجائے تو میں اس کی سفارش کروں گا یا فرمایا کہ میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا جب کہ وہ مسلمان ہو"۔

مسلم شریف کی دوسری روایت میں ہے :

"عن عائشة أنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما كان ليلتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج من آخر الليل إلى البقيع فيقول: « السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وأتاكم ما توعدون غداً مؤجلون، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، اللهم اغفر لأهل بقيع الغرقد »".

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب میری باری کی رات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے اخیر حصہ میں بقیع قبرستان کی طرف تشریف لے جاتے اور فرماتے: تمہارے اوپر سلام ہو اے مؤمنوں کے گھر والو! تمہارے ساتھ کیا گیا وعدہ آچکا جو کل پاؤ گے یا ایک مدت کے بعد اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں اور اللہ بقیع الغرقد والوں کی مغفرت فرما"۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن رجل من آل الخطاب عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " من زارني متعمداً كان في جواري يوم القيامة ومن سكن المدينة وصبر على بلائها كنت له شهيداً وشفيعاً يوم القيامة ومن مات في أحد الحرمين بعثه الله من الآمنين يوم القيامة ".

ترجمہ:"اور خطاب کے خاندان کا ایک شخص ناقل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بالقصد میری زیارت کرے گا وہ قیامت کے دن میرا ہم سایہ اور میری پناہ میں ہو گا، جس شخص نے مدینہ میں سکونت اختیار کر کے اس کی سختیوں پر صبر کیا قیامت کے دن میں اس کی اطاعت کا گواہ بنوں گا اور اس کے گناہوں کی بخشش کے لیے شفاعت کروں گا اور جو شخص حرمین (مکہ اور مدینہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا قیامت کے دن اسے اللہ تعالیٰ امن والوں میں اٹھائے گا (یعنی یہ قیامت کے دن عذاب کے خوف سے مامون رہے گا)۔

مذکورہ روایات سے معلوم ہوا کہ جومسلمان ایمان کی حالت میں حرمین میں سے کہیں وفات پائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو عذاب سے محفوظ لوگوں کے ساتھ اٹھائیں گے، اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع کے مدفونین کے لیے  بطورِ خاص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت کی دعا فرمائی ہے، اور اپنی شفاعت کا وعدہ فرمایا ہے، اس لیے جس مسلمان کو بھی ان مقدس مقامات پر دفن نصیب ہوجائے سراسر سعادت ہے،اور اس کی تمنا کرنا جائز ودرست، بلکہ مرغوب ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201476

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں