بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسے کی جنازہ گاہ میں باہر کے فرد کا نماز جنازہ پڑھانا


سوال

ہمارے آبائی علاقے میں یہ مسئلہ درپیش آیا ہے کہ بندہ کے قریبی عزیز (چچی و پھوپھا) کے انتقال پر جنازہ بندہ نے پڑھایا، بعد ازاں علاقے وجنازہ گاہ کے منتظمین نے یہ پیغام بندہ کے والد صاحب کو بھجوایا کہ اگر آئندہ آپ کے صاحبزادے نے جنازہ پڑھانا ہو تو ہمارے مدرسہ کے جنازہ گاہ میں میت نہ لائیں، یاد رہے کہ وہ جنازہ گاہ عوام کے چندے سے ہی بنائی گئی ہے، کیا ان منتظمین کا یہ عمل شرعی اعتبار سے درست ہے ؟ کیا شرعی نقطہ  نظر سے بندہ کا جنازہ پڑھانا درست نہ تھا ؟

جواب

نماز جنازہ پڑھانے میں امامِ محلہ کو ولی سے زیادہ حق  اس وقت حاصل ہے جب وہ ولی سےافضل ہو، لیکن اگر ولی، امامِ محلہ سے زیادہ علم رکھنے والا یا متقی ہو تو ولی کا حق مقدم ہوتا ہے۔

لہذا اگر سائل عالم ہے تو ان لوگوں کے نماز جنازہ پڑھانے کا اسے زیادہ حق حاصل ہے، جن کا وہ ولی ہے، جنازہ گاہ کے منتظمین کا پابندی لگانا درست نہیں، لیکن اگر سائل ولی نہیں تو بہتر یہ ہے کہ انہی افراد کو نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا جائے جنہیں انتظامیہ نے مقرر کیا ہے۔ اور اگر آئندہ ایسی جگہ پر نماز جنازہ پڑھانے کی نوبت آئے تو منتظمہ کو اعتماد میں لے کر  نمازِ جنازہ  پڑھائی جائے، اس کے بغیر نمازِ جنازہ پڑھانے میں نظم کی خرابی اور دیگر فسادات کا اندیشہ ہے۔ فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 143907200036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں