بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے کواٹر میں لگائی ہوئی الماری کی ملکیت کا حکم


سوال

ایک مدرس ہے جو تین سال سے ایک مدرسے میں دین، کی خدمت انجام دے رہا ہے اور وہ تین سال تک مدرسے کے فیملی کوارٹر میں مقیم رہا  اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ مدرس اس فیملی کوارٹر کے کمرے میں جس میں یہ فیملی کے ساتھ رہتا ہے کوئی زائد چیز لگائے، جیسے ہینگر لگایا کپڑے سکھانے کے لیے یا دروازے والی الماری لگائی سامان وغیرہ رکھنے کے لیے، جب کہ مدرسے والوں نے براہِ راست اس مدرس سے کچھ لگانے یا نا لگانے کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا تو یہ مدرس مدرسہ سے مستعفی ہونے کے وقت اپنی وہ زائد لگائی ہوئی الماری ہٹا سکتا ہے یا نہیں، جب کہ اس کے ہٹانے میں کمرے کی در و دیوار کو کوئی خطرہ و نقصان بھی نہ ہو؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مدرسہ والے اس الماری کو ہٹانے سے انکار کریں اور مدرس کو ہٹانے سے منع کریں تو کیا مدرسہ کے ذمہ یہ قرض ہوگا یا نہیں؟ تیسری بات یہ ہے کہ جب مدرسے والوں نے الماری دینے سے انکار کیا تو مدرس نے اس الماری کی قیمت کے برابر اسی مدرسے میں اپنے پڑھنے والے بچے کی فیس ادا کرنے سے انکار کر دیا اور مدرسے والوں کو کہا کہ جب تک آپ لوگ میری الماری یا اس کی قیمت ادا نہیں کروگے تب تک میں بھی فیس ادا نہیں کروں گا ۔ تو کیا مدرس کو الماری قیمت وصول کرنے کے لیے یہ ترتیب اپنانا صحیح ہے؟ 

جواب

مدرس کی حیثیت مدرسہ کے کواٹر میں مالک کی نہیں ہے، مستعیر کی ہے، اور جو اپنی مملوکہ اشیاء اس میں لگائی ہیں ان کو وصول کرنے کا اختیار ہے۔ وہ مدرسہ کی ملکیت نہیں، کوارٹر کو نقصان دیے بغیر وہ اس کو نکال سکتا ہے۔ انتظامیہ مدرسہ کو  چاہیے کہ اگر وہ اس کو لگے رہنے دینا چاہتے ہیں تو اس الماری کی ادھڑی ہوئی یا لگی ہوئی میں سے جو رقم کم ہو  وہ رقم ادا کرے ۔ باہمی رضامندی سے یہ مسئلہ حل کرلیں اور پرانی الماریوں کی رقم ادا کردیں۔  اگر باہمی رضامندی سے مسئلہ حل نہ ہو تو جب تک مدرسے والے الماری نکالنے نہ دیں، یا الماری کی قیمت (خواہ پرانی کے اعتبار سے ہو) ادا نہ کریں تب تک وہ اسی گھر میں رہائش رکھ سکتاہے۔ نیز اپنی واجب الوصول رقم کے لیے  واجب الاداء فیس میں سے منہا  بھی کرسکتا ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 235):
" مستأجر حانوت الوقف بنى فيه بغير إذن القيم لايرجع عليه ويرفع بناءه إن لم يضر بالوقف وإلا يتملكه القيم بأقل القيمتين منزوعاً وغير منزوع، فإن أبى يتربص إلى أن يخلص ماله، ثم قال: مستأجر الوقف بنى غرفةً على الحانوت إن لم يضر بأصله ويزيد في أجرته أو لايستأجر إلا بالغرفة يجوز وإلا فلا". اهـ. 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200912

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں