بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ میں حفظ کرنے والے بچوں کے بار بار آیت سجدہ تلاوت کرنے سے سجدہ تلاوت کا حکم


سوال

کیا سجدے والی آیت اگر بچے سبق یاد کرتے ہوئے بار بار  پڑھیں یا دہرائی کرتے ہوئے  2 بار پڑھیں تو سجدہ تلاوت کتنی مرتبہ ادا کرنا ہوگا؟ یا بچے کے لیے کچھ گنجائش ہوتی ہے یا یہ کہ وہ چھوڑبھی سکتے ہیں؟

کیا  وہ سجدے  والدین کے ذمہ واجب الادا ہوں گے؟

جواب

نابالغ بچے پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے، خواہ وہ خود تلاوت کرے یا کسی اور سے آیت سجدہ سن لے، اور ان کے آیت سجدہ تلاوت کرنے یا سننے کی وجہ سے ان کی طرف سے  ان کے والدین کے ذمہ بھی سجدہ تلاوت لازم نہیں ہوتا۔

 باقی اگرنابالغ بچہ آیت سجدہ تلاوت کرے اور بالغ مکلف شخص اس کو سن لے تو اس پر سجدہ تلاوت کے واجب ہونے نہ ہونے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر تلاوت کرنے والا بچہ ممیز ، سمجھ دار ہے  اس کی تلاوت سے سامع مکلف بالغ پر سجدہ تلاوت کرنا واجب ہوجائے گا، اور اگر وہ غیرممیز یعنی ناسمجھ ہے  تو اس کی تلاوت سے سننے والے بالغ پر بھی سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوگا۔

جن صورتوں میں سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہوتاہے، اس میں  بار بار سننے کی صورت میں سجدہ تلاوت واجب ہونے کی یہ تفصیل ہے کہ :

1۔۔ اگر ایک ہی آیت کئی مرتبہ سنی  اور ایک ہی مجلس میں سنی  تو ایک ہی سجدہ کرنا واجب ہو گا۔

2۔۔ اگر ایک ہی آیتِ سجدہ کئی مرتبہ  سنی، لیکن مجلس مختلف ہوتی رہی تو ہر مرتبہ کے لیے الگ سجدہ کرنا واجب ہو گا۔

3۔۔  اگر ایک ہی آیت کئی مرتبہ سنی، لیکن پڑھنے والا ہر مرتبہ مختلف تھا تو ہر مرتبہ کے لیے الگ سجدہ کرنا واجب ہو گا۔

4۔۔ اگر مختلف آیاتِ سجدہ سنیں تو ہر آیت کے لیے الگ سجدہ کرنا واجب ہو گا، خواہ پڑھنے والا ایک ہو یا مختلف۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 107):

" وتجب ... (على من كان) متعلق بيجب (أهلاً لوجوب الصلاة)؛ لأنها من أجزائها (أداء) كالأصم إذا تلا، (أو قضاءً) كالجنب والسكران والنائم، (فلا تجب على كافر وصبي ومجنون وحائض ونفساء قرءوا أو سمعوا)؛ لأنهم ليسوا أهلاً لها، (وتجب بتلاوتهم) يعني المذكورين (خلا المجنون المطبق) فلا تجب بتلاوته؛ لعدم أهليته.

(قوله: وتجب بتلاوتهم) أي وتجب على من سمعهم بسبب تلاوتهم ح. (قوله: يعني المذكورين) أي الأصم والنفساء وما بينهما (قوله: خلا المجنون) هذا ما مشى عليه في البحر عن البدائع. قال في الفتح: لكن ذكر شيخ الإسلام أنه لايجب بالسماع من مجنون أو نائم أو طير؛ لأن السبب سماع تلاوة صحيحة، وصحتها بالتمييز ولم يوجد، وهذا التعليل يفيد التفصيل في الصبي، فليكن هو المعتبر إن كان مميزاً وجب بالسماع منه وإلا فلا اهـ واستحسنه في الحلية".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200719

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں