جناب میں اپنی بیٹی کا نام "محمدہ عابد" رکھ سکتا ہوں؟
’’محمدہ‘‘ نام کا مطلب عربی لغت کے اعتبار سے ’’وہ لڑکی جس کی تعریف کی گئی ہو‘‘ بنتا ہے، اس معنی کے اعتبار سے تو اس نام کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ چوں کہ یہ نام حضورِ اکرم ﷺ کے نام مبارک ’’محمد‘‘ کی تأنیث ہے اور تأنیث کے صیغہ کے ساتھ یہ نام حضورِ اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے رکھنا ثابت نہیں ہے؛ اس لیے اس نام کے بجائے ایسا نام رکھنا بہتر ہے جن کا رکھنا خود آپ ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہو یا صحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں پر ہو، یا کوئی اچھا بامعنی مؤنث نام ہو۔
آپ اپنی بیٹی کا نام "محمدہ" کے بغیر صرف "عابدہ" رکھ سکتے ہیں۔
تاج العروس (8/ 39):
"(والتحميد حمد) ك (الله) عز وجل (مرة بعد مرة) ، وفي التهذيب: التحميد: كثرة حمد الله سبحانه) بالمحامد الحسنة، وهو أبلغ من الحمد، (وإنه لحماد لله عز وجل) .
(ومنه) أي من التحميد (محمد) ، هاذا الاسم الشريف الواقع علما عليه صلى الله عليه وسلم، وهو أعظم أسمائه وأشهرها (كأن حمد مرة بعد مرة) أخرى".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200796
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن