بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

محراب مسجد کا حصہ ہے تو امام محراب سے باہر پاؤں کیوں رکھتا ہے؟


سوال

اگر محراب مسجد کا ہی حصہ ہوتا ہے تو پھر ممبر اور مصلے کی وہ جگہ جہاں پر امام کے پاؤں ہوتے ہیں وہ محراب سے باہر مسجد کے حصے میں کیوں ہوتے ہیں؟

جواب

مساجد میں جو محراب بنائے جاتے ہیں وہ شرعاً مسجد کا حصہ ہوتے ہیں، البتہ ان کے بنانے سے غرض یہ ہے کہ  قبلہ رخ متعین ہوجائے اور مسجد کے درمیان کاتعین ہوجائے، تاکہ امام صف کے بیچ میں کھڑا ہو، گویامحراب  اصل مقصود نہیں ہے، بلکہ وہ ایک علامت  ہے۔لیکن امام کا مکمل محراب کے اندر کھڑا ہونا اس لیے مکروہ ہے کہ محراب اگرچہ مسجد کا حصہ ہے  لیکن وہ ایک مستقل جگہ کی طرح ہے اور  اس میں امام کے الگ کھڑے ہونے میں اہلِ  کتاب سے مشابہت ہے، یا اس سے امام کے دائیں بائیں کھڑے ہوئے افراد پر امام کی حالت مشتبہ ہوجاتی ہے؛ اس لیے اس میں کراہت ہے.

ہاں اگر امام کے قدم محراب سے باہر ہوں اگرچہ سجدہ محراب میں کرے تو پھر کراہت نہیں ہوگی، اس وجہ سے مساجد میں امام محراب سے باہر قدم رکھ کر یا مکمل طور پر باہر کھڑے ہوتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 645):
"(وقيام الإمام في المحراب لا سجوده فيه) وقدماه خارجة لأن العبرة للقدم (مطلقاً) وإن لم يتشبه حال الإمام إن علل بالتشبه وإن بالاشتباه ولا اشتباه فلا اشتباه في نفي الكراهة.

(قوله: إن علل بالتشبه إلخ) قيد للكراهة. وحاصله أنه صرح محمد في الجامع الصغير بالكراهة ولم يفصل؛ فاختلف المشايخ في سببها، فقيل كونه يصير ممتازا عنهم في المكان لأن المحراب في معنى بيت آخر وذلك صنيع أهل الكتاب، واقتصر عليه في الهداية  واختاره الإمام السرخسي وقال إنه الأوجه، وقيل اشتباه حاله على من في يمينه ويساره، فعلى الأول يكره مطلقا، وعلى الثاني لا يكره عند عدم الاشتباه، وأيد الثاني في الفتح بأن امتياز الإمام في المكان مطلوب، وتقدمه واجب وغايته اتفاق الملتين في ذلك، وارتضاه في الحلية وأيده، لكن نازعه في البحر بأن مقتضى ظاهر الرواية الكراهة مطلقا، وبأن امتياز الإمام المطلوب حاصل بتقدمه بلا وقوف في مكان آخر، ولهذا قال في الولوالجية وغيرها إذا لم يضق المسجد بمن خلف الإمام لا ينبغي له ذلك لأنه يشبه تباين المكانين انتهى. يعني: وحقيقة اختلاف المكان تمنع الجواز فشبهة الاختلاف توجب الكراهة والمحراب وإن كان من المسجد فصورته وهيئته اقتضت شبهة الاختلاف اهـ ملخصاً.
قلت: أي لأن المحراب إنما بني علامة لمحل قيام الإمام ليكون قيامه وسط الصف كما هو السنة، لا لأن يقوم في داخله، فهو وإن كان من بقاع المسجد لكن أشبه مكانا آخر فأورث الكراهة، ولا يخفى حسن هذا الكلام فافهم، لكن تقدم أن التشبه إنما يكره في المذموم وفيما قصد به التشبه لا مطلقا، ولعل هذا من المذموم تأمل. هذا وفي حاشية البحر للرملي: الذي يظهر من كلامهم أنها كراهة تنزيه تأمل اه". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201809

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں