بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مجہول قرأت کرنے والے امام کے پیچھے نماز کا حکم


سوال

کیا سند یافتہ عالم دین مجہول قراء ت کرے اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی  یا نہیں؟

جواب

جواب سے پہلے  چند  اہم باتوں کی  وضاحت ضروری ہے :

1۔ کسی  خاص شخص سے متعلق سوال پوچھنا ہو تو  ضروری  ہے کہ جو دعویٰ یا الزام ہو اس کا ثبوت بھی پیش کیا جائے،  یا نزاعی مسئلہ ہو تو جانبین کا موقف مستند ذرائع سے پیش کیا جائے، اس لیے مذکورہ سوال جیسے معاملات میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی مستند دار الافتاء میں ثبوت کے ساتھ ( مثلاً تلاوت کی آڈیو کی ریکارڈنگ کے ساتھ) حاضر ہوکر جواب معلوم کرلیا جائے۔

2۔ اور اگر ثبوت نہ ہوں تو کسی خاص شخص کو نشانہ بنا کر سوال کرنا شرعاً ہرگز پسندیدہ ودرست نہیں ہے۔ اگر عمومی مسئلہ دریافت کرنا ہو تو یوں سوال کرلیا جائے کہ مجہول قراء ت کا کیا حکم ہے؟ کیوں کہ مجہول قراء ت جو شخص بھی کرے نماز کا حکم یکساں ہوگا، کسی شخص کے سند یافتہ عالم ہونے سے نماز کی صحت وعدمِ صحت کے اعتبار سے فرق نہیں آئے گا،  لہٰذا مذکورہ طرزِ سوال کی اصلاح کی  بھی ضرورت ہے۔ 

بہر حال ذیل میں مجہول قراء ت کا حکم تفصیلاً درج کیا جارہاہے، اگر واقعۃً کوئی شخص ایسے قراءت کرتا ہو  تو اس کا حکم یہ ہوگا۔  لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا  کہ امام کی قرأت مجہول ہے یا نہیں؟ اور اگر مجہول ہے تو کس درجہ کی مجہول ہے؟ یہ عوام اور ہر ایرے غیرے کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ فیصلہ کرنا ماہر فن یعنی ماہر مجود قاری ہی کر سکتا ہے، اس  لیے درج ذیل  فتوے کے ذریعہ مسجد میں امام کے خلاف فتنہ کھڑا کرنا  اور انتشار پھیلانا درست نہیں ہے،  بلکہ امام صاحب کی قرأت کسی ماہر مجود قاری اور مفتی صاحب کو سنوا کر ان سے فیصلہ کروالیا جائے کہ امام صاحب کی قرأت کیسی ہے۔ 

 

قرآن کریم کو مجہول پڑھنا جائز نہیں ہے، مجہول پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ حرکات کو اس طرح  مبہم پڑھا جائے کہ واضح نہ ہو کہ کون سی حرکت پڑھی جا رہی ہے یا حرکات کو اِس قدر لمبا اور دراز کر کےپڑھنا  کہ حرکت سے حرف بن جائے،جیسے : زبَر کو لمباکرکے الف بنادینا ، پیش کو لمباکرکے واؤ بنادینا ، اِسی طرح زیر کو دراز کرتے ہوئے یاء بنادینا ،  نماز کے اندر مجہول قرأت کرنے کا  حکم یہ ہے کہ مجہول پڑھنے سے اگر ایسی فحش غلطی ہوجائے کہ قرأت میں لحنِ جلی کا ارتکاب لازم آجائے اور معنی بدل کر بالکل فاسد ہو جائے  تو نماز بھی فاسد ہوجائے گی، ، مثلاالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ “ کومجہول طریقے سے اِس طرح پڑھائے جائے، کہ ” الحمد“ کی دال کے بعد واؤ بڑھادیا جائے ،” لِلّٰہ“ میں لام یا ہاء کے بعد یاء بڑھادی جائے، ”ربّ“ میں راء کے بعد الف بڑھادیں، یہ سب فحش غلطیاں ہیں ، اِن سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، لہٰذا ایسی قرأت کرنے والے امام کے پیچھے نماز نہیں ہوگی، البتہ اگر مجہول پڑھنے سے قرأت میں کسی لحن جلی کا ارتکاب لازم نہ آئے اور نہ ہی معنیٰ کا فساد لازم آئے  تو نماز فاسد نہیں ہوگی، البتہ ایسی مجہول  قراء ت کرنا قرآن کے حسن و زینت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے، لیکن اس طرح کی مجہول قرأت کرنے والے امام کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے، لیکن ایسے امام کو چاہیے  کہمشق کر کے  اپنی قرأت کو درست کرنے اور خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کی کوشش کرتا رہے۔الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 630)

"ومنها القراءة بالألحان إن غير المعنى وإلا لا إلا في حرف مد ولين إذا فحش وإلا لا ،بزازية.

 (قوله بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلها كما في الفتح إشباع الحركات لمراعاة النغم (قوله إن غير المعنى) كما لو قرأ - {الحمد لله رب العالمين} [الفاتحة: 2]- وأشبع الحركات حتى أتى بواو بعد الدال وبياء بعد اللام والهاء وبألف بعد الراء، ومثله قول المبلغ رابنا لك الحامد بألف بعد الراء لأن الراب هو زوج الأم كما في الصحاح والقاموس وابن الزوجة يسمى ربيبا.

(قوله وإلا لا إلخ) أي وإن لم يغير المعنى فلا فساد إلا في حرف مد ولين إن فحش فإنه يفسد، وإن لم يغير المعنى، وحروف المد واللين وهي حروف العلة الثلاثة الألف والواو والياء إذا كانت ساكنة وقبلها حركة تجانسها، فلو لم تجانسها فهي حروف علة ولين لا مد. [تتمة]

فهم مما ذكره أن القراءة بالألحان إذا لم تغير الكلمة عن وضعها ولم يحصل بها تطويل الحروف حتى لا يصير الحرف حرفين، بل مجرد تحسين الصوت وتزيين القراءة لا يضر، بل يستحب عندنا في الصلاة وخارجها كذا في التتارخانية. مطلب مسائل زلة القارئ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 557)

"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات".

" (قوله ثم الأحسن تلاوة وتجويدا) أفاد بذلك أن معنى قولهم أقرأ: أي أجود، لا أكثرهم حفظا وإن جعله في البحر متبادرا، ومعنى الحسن في التلاوة أن يكون عالما بكيفية الحروف والوقف وما يتعلق بها قهستاني".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں