بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مالِ غیر نامی میں زکاۃ اور قربانی


سوال

میرے پاس کچھ کتابیں ہیں،مطالعہ نہیں کرتا  جن  کی مالیت 20، 30 ہزار ہے۔ اور کچھ کیش بھی ہے، اب سب پر زکاۃ ہے یا نہیں ؟

قربانی بھی اس سال نہیں کی،  میرے پاس اور تو کچھ نہیں تو زکاۃ کہاں سے دوں؟

جواب

زکاۃ  کے وجوب کے لیے  مال کا  نامی ہونا شرط ہے۔ تجارت کے علاوہ کے لیے  رکھی ہوئی کتابیں چوں کہ  نامی نہیں یعنی ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ؛  اس لیے   اگر کتب تجارت کے لیے  نہیں تو اس پر زکاۃ  واجب نہیں ہوتی۔ البتہ اگر اس کے علاوہ آپ کے پاس  ضرورت سے زائد  نقد رقم ، سونا، چاندی اور مالِ تجارت میں سے اتنا مال ہو  جس کی  مالیت ساڑھے باون تولہ چانددی کے بقدر بنتی ہو تو اس پر سال پورا ہونے پر زکاۃ واجب ہوگی، خواہ ان ہی چیزوں کو بیچ کر ادا کرنی پڑے، ورنہ زکاۃ واجب نہیں۔

البتہ قربانی  اور صدقہ فطر وغیرہ کے نصاب میں یہ شرط نہیں ہے؛ لہذا  اگر یہ کتب آپ کی ضرورت اور مطالعہ میں نہیں آتیں،  جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے تو  اگر ان کتابوں  اور نقد رقم کی مالیت ملاکر کل مال ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر بنتا ہو تو آپ  پرقربانی وغیرہ واجب ہوگی۔ اور نہ کرنے کی صورت میں توبہ اور استغفار کے ساتھ ساتھ   قربانی کے جانور کی رقم کے بقدر رقم صدقہ کرنا لازم ہوگا۔

"( ومنہا: کون النصاب نامیاً ) حقیقۃ بالتوالدوالتناسل والتجارۃ أوتقدیراً بأن یتمکن من الاستنماء بکون المال فی یدہ أوفی یدنائبہ ۔ ۔ ۔ ۔ ( ومنہا: حولان الحول علی المال ) العبرۃفی الزکوۃ للحول القمری، کذافی القنیۃ۔ وإذاکان النصاب کاملاً فی طرفی الحول فنقصانہ فیمابین ذلک لایسقط الزکوۃ، کذافی الہدایۃ ۔ ولواستبدل مال التجارۃ اوالنقدین بجنسہما اوبغیر جنسہما لاینقطع حکم الحول ‘‘ … ( الہندیۃ : ۱ ؍ ۱۷۴ )

"وتصدق بقیمتہا غنی شراہا أولا لتعلقہا بذمتہ بشرائہا أولا فالمراد بالقیمۃ قیمۃ شاۃ تجزئ فیہا"۔ (الدر المختار، کتاب الأضحیۃ، کراچی ۶/۳۲۱،

"إن کان من لم یضح غنیاً ولم یوجب علی نفسہ شاۃ بعینہ تصدق بقیمۃ الشاۃ اشتریٰ أو لم یشتر"۔ (عالمگیری، کتاب الأضحیۃ، الباب الرابع )

"ولا زکاۃ فی ثیاب البدن الخ ودور السکنی ونحوھا وکذا الکتب وان لم تکن لا ھلھا اذا لم تنو للتجارۃ غیر ان الاھل لہ اخذ الزکوٰۃ وان ساوت نصبا الا ان تکون غیر فقہ و حدیث و تفسیر او تزید علی نسخقین ھو المختار الخ وفی الا شباہ الفقیہ الا یکون غنیا بکتبہ المحتاج الیھا ، الا فی دین العباد فتباع لہ"۔ (در مختار)

"استدراک علی التعمیم الماخوذ من قولہ : وان لم تکن لا ھلھا ای ان الکتب لا زکاۃ فیھا علی الا ھل وغیرھم من ای علم کانت؛ لکو نھا غیر نامیۃ، وانما الفرق بین الا ھل وغیرھم فی جواز اخذ الزکوٰۃ والمنع عنہ، فمن کان من اھلھا اذا کان محتاجاً الیھا للتدریس والحفظ والتصحیح؛ فانہ لا یخرج بھا عن الفقر فلہ اخذ الزکوٰۃ ان کانت فقھاً او حدیثاً او تفسیراً ولم یفضل عن حاجتہ نسخ تساوی نصاباً کان یکون عندہ من تصنیف نسختان، وقیل: ثلاث؛ لان النسختین یحتاج الیھا التصحیح کل من الا خری والمختار الا ول ای کون الزائد علی الزائد علی الواحدۃ فاضلاً عن الحاجۃ، واما غیر الا ھل فانھم یحرمون بالکتب من اخذ الزکوٰۃ الخ (رد المحتار کتاب الزکوٰۃ ج ۲ ص۱۰ و ج ۲ ص ۱۱۔ط۔س۔ج۲ص۲۶۴-۲۶۵)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں