مالِ تجارت کےلیے قرضہ لینے والے شخض کو زکاۃ دینا کیسا ہے تاکہ وہ اپنا قرضہ ادا کر سکے؟
اگر اس شخص کے پاس اتنا مالِ تجارت ،نقد رقم، زیورات اور ضرورت سے زائد اشیاء اس قدر نہیں ہیں جنہیں فروخت کرکے اس کا قرضہ اتر جائے اور اور اس کے پاس نصاب کے بقدر مالیت نہ بچے تو اسے قرضے کی ادائیگی کے لیے زکاۃ دی جاسکتی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"یجوز دفع الزکاة إلی من یملك نصاباً أي مال کان دنانیر أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغیر التجارة فاضلاً عن حاجته في جمیع السنة، هکذا في الزاهدي. والشرط أن یکون فاضلاً عن حاجته الأصلیة، وهي مسکنه، وأثاث مسکنه وثیابه وخادمه، ومرکبه وسلاحه، ولایشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزکاة لا الحرمان، کذا في الکافي. ویجوز دفعها إلی من یملك أقل من النصاب، وإن کان صحیحاً مکتسباً، کذا في الزاهدي. ولایدفع إلی مملوك غني غیر مکاتبه، کذا في معراج الدرایة . (۱۸۹/۱ الهندیة) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201548
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن