بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالِ تجارت کی زکاۃ میں کس قیمت کا اعتبار ہے؟


سوال

مالِ تجارت میں زکاۃ ملنے والے پرافٹ پر فرض ہے؟یا قیمتِ خرید پر؟اگر پرافٹ پر فرض ہو تو ہر کسٹمر سے پرافٹ کبھی الگ لیا جاتا ہےکبھی کم کبھی زیادہ تو کیسے حساب لگایا جائے گا؟اگر شاپ کا سامان بیچا اور ملنے والا کیش اور رکھا ہوا سامان کو قیمتِ خرید پر جمع کرکے زکاۃ نکالی تو کیا حکم ہے؟

جواب

مالِ تجارت میں زکاۃ کی ادائیگی کے لیےقیمتِ فروخت کا اعتبار ہے یعنی دکان میں رکھا سامانِ تجارت جس قیمت پر گاہک کو فروخت کیا جاتا ہے زکاۃ ادا کرنے کے لیے اسی قیمت سے حساب لگایا جائے گا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس وقت زکاۃ کا سال مکمل ہو اس وقت جو رقم بنیادی ضرورت، ماہانہ گھریلو اخراجات سے زائد ملکیت میں موجود ہو (چاہے وہ سامانِ تجارت بیچ کر حاصل ہوئی ہو یا کسی اور ذریعہ سے) اور جو سامانِ تجارت موجود ہو اس کی موجودہ بازاری قیمت لگائی جائے، اور کل مالیت کا ڈھائی فی صد بطورِ زکاۃ ادا کردیاجائے۔ جو مال درمیان سال میں خرچ ہوگیا، زکاۃ میں اس کا حساب نہیں کیا جائے گا، اس لیے ہر ہر چیز کا الگ حساب لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اگر مالِ تجارت کی زکاۃ  قیمتِ خرید کے مطابق ادا کی ہے تو قیمتِ فروخت کے مطابق دوبارہ حساب کرکے جتنا فرق آرہا ہو اتنی رقم مزید زکاۃ ادا کی جائے۔ حاصل یہ ہے کہ مال تجارت میں قیمتِ خرید یا صرف منافع پر زکاۃ نہیں، بلکہ قیمتِ فروخت پر زکاۃ واجب ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں