بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مؤذن کی فضیلت


سوال

میں 4 سال سے اذان دینے کا شرف حاصل کررہا ہوں(میں نے ان 4 سالوں میں مختلف اوقات کی اذانیں دینے کا شرف حاصل کیا ہے)اور اس وقت میں ظہر اور عصر کی اذان پڑھ رہا ہوں، لیکن مجھے اب نوکری کی وجہ سے ظہر اور عصر کی اذان چھوڑنی پڑ رہی ہے, یہ میں مجبوری میں چھوڑ رہا ہوں،میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ میں اب مؤذن نہیں رہوں گا، کیا مجھے کل قیامت والے دن وہ سب فضیلتیں ملیں گی, جو کل قیامت والے دن ایک مؤذن کو ملیں گی, جن کا ذکر احادیثِ مبارکہ  میں آیا ہے یا نہیں ملیں گی؟ اس سوال کا جواب آسان اور تفصیل میں دیجیے گا, اس سوال کے جواب میں جو آپ احادیثِ مبارکہ یا فتوی  یا حوالہ دیں اس کا ساتھ ترجمہ بھی لکھیں؛ تاکہ مجھے سوال آسانی سے سمجھ میں آجائے!

جواب

اذان اسلام کا شعار ہے، اس کی اہمیت اور عظمت مسلم ہے، اور مؤذن کا بھی بہت اونچا مقام ہے، احادیث میں مؤذن کی  فضیلت  کے سلسلے میں بہت ساری روایتیں وارد ہیں، چند روایتیں ملاحظہ ہوں:

(1)عبد الرحمن بن ابی صعصعہ کہتے ہیں کہ مجھے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے، اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو، کیوں کہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔

" عن عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي صعصعة الأنصاري ثم المازني، عن أبيه، أنه أخبره أن أبا سعيد الخدري، قال له: إني أراك تحب الغنم والبادية، فإذا كنت في غنمك، أو باديتك، فأذنت بالصلاة فارفع صوتك بالنداء، فإنه: «لايسمع مدى صوت المؤذن، جن ولا إنس ولا شيء، إلا شهد له يوم القيامة» ، قال أبو سعيد: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم". ( صحيح البخاري (1/ 125)
(2) عبد اللہ  بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ جہاں تک مؤذن کی اذان کی آواز پہنچتی ہے، وہاں تک کی وہ تمام چیزیں جو اس کی اذان سنتی ہیں سب اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی ہیں۔

"عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: المؤذن یغفر له مد صوته، ویستغفر له کل رطب ویابس". (المعجم الکبیر للطبراني، دار احیاء التراث العربي ۲/ ۳۰۴، رقم: ۱۳۶۹)
(3) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤذن کی گردن کو تمام مخلوق سے بلند فرمادیں گے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤذن کو قیامت کے دن بہت اونچا مقام عطا کریں گے۔

"عن معاویة -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول: المؤذنون أطول الناس أعناقاً یوم القیامة". (صحیح مسلم، الصلاة، باب فضل الأذان، النسخة الهندیة ۱/ ۱۶۷)

(4) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص ثواب کی امید رکھتے ہوئے سات سال تک اذان دے تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے ۔

"عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله ﷺ: من أذن محتسباً سبع سنین کتبت له براء ة من النار". (جامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء في فضل الأذان، النسخة الهندیة ۱/ ۵۱، دارالسلام، رقم: ۲۰۶)

(5) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما  آپ ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ: تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، جنہیں دیکھ کر تمام اولین وآخرین رشک کریں گے، ایک ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقا کے حقوق ادا کرتا ہو، دوسرے وہ امام جس سے اس کے مقتدی راضی ہوں، تیسرے وہ مؤذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو۔

"عن عبد الله بن عمر أن رسول الله ﷺ قال: ثلاثة علی کثبان المسک یوم القیامة رجل أم قوماً وهم به راضون، ورجل یؤذن في کل یوم ولیلة خمس صلوات"... الخ (مسند أحمد ۲/ ۲۶، رقم: ۴۷۹۹)

(6) ضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کتنی فضیلت ہے پھر وہ اس پر قرعہ اندازی کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ پائیں تو وہ اس پر ضرور قرعہ اندازی کریں. اور اگر وہ جان لیں کہ (نماز کے لیے) اول وقت آنے میں کیا فضیلت ہے تو وہ ضرور اس کی طرف دوڑ کر آئیں. اور اگر وہ جان لیں کہ نماز عشا اور نماز فجر کی کتنی فضیلت ہے تو وہ ضرور ان میں شریک ہوں ،اگر چہ انہیں سر ین کے بل گھسٹ کر آنا پڑے۔

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لو يعلم الناس ما في النداء والصف الأول، ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا عليه لاستهموا، ولو يعلمون ما في التهجير لاستبقوا إليه، ولو يعلمون ما في العتمة والصبح، لأتوهما ولو حبواً»". (صحيح البخاري (1/ 126)

(7) ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے خاص طور پر مؤذن کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی ہے۔

"عن أبي هریرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: الإمام ضامن، والمؤذن مؤتمن، اللهم أرشد الأئمة واغفر للمؤذنین". (جامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء أن الإمان ضامن والمؤذن مؤتمن، النسخة الهندیة ۱/ ۵۱، دارالسلام، رقم: ۲۰۷)

مؤذن جس طرح اذ۱ن کے  ذریعے اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہے اور اس کی وحدانیت کا ترانہ گاتا ہے، اسی طرح کا اس کو اجر بھی رب العزت مرحمت فرمائیں گے  کہ قیامت کے دن یہ تمام پر بلند ہوگا، اس کو امتیازی شان حاصل ہوگی، اور وہ ساری کائنات جس نے اس کی آواز سن لی ہے، اس کے حق میں گواہی دے گی۔ یہ وہ اجر ہے جو حدیثوں میں مذکور ہے،  احادیث میں بعض فضیلت پنچ وقتہ نمازوں کے لیے اذان دینے کے ساتھ خاص ہیں، اور بعض ایک معتد بہ وقت تک مستقل اذان دینے کے لیے، لیکن باقی دیگر احادیث مطلقاً اذان دینے والے کی فضیلت میں وارد ہیں، جیساکہ آپ نے اوپر اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائی ہے، لہذا  اللہ کی رضا کے لیےجو  اذانیں دی گئی  ہیں قیامت میں اس کا اجر اور اذان دینے والے سے متعلق جو فضیلتیں وارد ہیں ان  شاء اللہ  اذان دینے والے کو  وہ فضیلتیں حاصل ہوں گی، البتہ جو فضیلت ایک خاص وقت (مثلاً سات سال) تک اذان دینے کی ہے ازروئے حدیث وہ اسی مقررہ وقت تک اذان دینے کی صورت میں حاصل ہوگی، لہذا  جب بھی موقع ملے یہ سعادت حاصل کرتے رہناچاہیے، البتہ فی الوقت آپ ملازمت کی مجبوری کی وجہ سے اذان نہیں دے سکتے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت واسعہ سے امید رکھنی چاہیے کہ ان شاء اللہ وہ مذکورہ فضائل کے ساتھ ساتھ آپ کی اس تڑپ اور مجبوری پر مستقل اور اضافی اجر عطا فرمائیں گے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں