بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لیٹ آنے پر تنخواہ کی کٹوتی


سوال

 ہم چند ساتھی ایک دینی ادارے میں دوپہر دو بجے سے رات دس بجے تک کام کرتے ہیں، جب ہم دو بجے سے دس بیس منٹ یا اس سے زیادہ دیر سے آتے ہیں تو ادارے والے ہمارے تنخواہوں سے کٹوتی کرتے ہیں جب ہم دس بجے سےاوپر اضافی ٹائم دیتے ہیں تو ہمیں اس کی اضافی رقم نہیں دی جاتی ،  کیا یہ کٹوتی کرنا اور اضافی ٹائم کا رقم نہ دینا جائز ہے ؟

جواب

معاہدے میں جو وقت آپ کے کام کے لیے طے ہوا تھا وہی آپ کا کام کا وقت ہے، اس میں تاخیر کرنے پر ادارے والے کٹوتی میں حق بجانب ہیں، اور  جو اضافی وقت آپ کسی معاہدے کے بغیر دیتے ہیں وہ آپ کا احسان ہے۔

آپ ادارے والوں سے معاہدہ دوبارہ کرلیں جس میں ایک دن کے کل گھنٹہ متعین کرلیں  کہ اگر آنے  میں  تاخیر ہوجائے  تو اضافی وقت سے وہ پوری کردی جائے،اس صورت میں ادارے والے اضافی وقت دینے کی صورت میں آپ کی تنخواہ نہیں کاٹ سکیں گے۔

’’المسلمون عند شروطهم إلاشرطا حرم حلالاً أوحلل حراماً‘‘. (الترمذي :ج ۱؍ص۱۲۱؍)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200280

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں