بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لکوریا آنے والی خاتون کے وضو و نماز کا حکم


سوال

1۔ میری بیوی کو لکوریا کا مسئلہ ہے، کبھی تو بالکل پانی کی طرح  اور کبھی جب باتھ روم جاؤ  تو  معلوم ہوتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ جن خواتین کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے ان کا ایک وضو  ایک نماز کے وقت کے لیے ہوتا ہے اور جیسے ہی دوسری نماز کی اذان ہوتی ہے تو ان کا وضو ختم ہوجاتا ہے اور دوسرا وضو کرنا ہوتا ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ یا پھر ان دنوں  میں ایسے ہی ہر نماز کے لیے وضو کرنا ہوگا جب کہ پانی کی طرح لکوریا آرہا ہو ،  یا جب نہیں آرہا ہو تب بھی ہر نماز کے لیے الگ وضو کرنا ہوگا؟ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں اگر کبھی سفر میں ہوں یا ایسی جگہ پر ہوں جہاں بار بار وضو کا ماحول نہ ہو یا سہولت نہ ہو  تو  اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

2۔ اخراجِ ریح کا تقاضا ہو تو کیا اسے روک کر نماز پڑھنا صحیح ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ شرعاً "معذور " ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جس کو وضو توڑنے کے اسباب میں سے کوئی سبب (مثلاً ریح،خون ، قطرہ، لکوریا وغیرہ) مسلسل پیش آتا رہتا ہو  اور ایک نماز کے مکمل وقت میں اس کو اتنا وقت بھی نہ ملتا ہو کہ وہ با وضو ہو کر وقتی فرض نماز ادا کر سکے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ وہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد وضو کرلے اور دوسری نماز کا وقت داخل ہونے تک جتنی نمازیں تلاوت و دیگر عبادات چاہے اس وضو سے کرے، بشرطیکہ وضو توڑنے کے دیگر اسباب میں سے کوئی اور سبب پیش نہ آئے۔ 

پس مسئولہ صورت میں معذورِ شرعی کی تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے مذکوہ خاتون کو چاہیے کہ دیکھ لے، اگر اسے لکوریا کی شکایت مسلسل اس طور پر رہتی ہو کہ  کسی نماز کے پورے وقت میں اسے اتنا وقت بھی نہ ملے کہ با وضو ہو کر وقتی فرض ادا کرسکے تو ایسی صورت میں وہ شرعاً معذور شمار ہوگی، اور اسے ہر نماز کے وقت کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہوگا، اس ایک وضو سے اس نماز کے وقت کے اندر جتنی چاہے عبادت کرے، نماز کا وقت نکلتے ہی اس کا وضو ختم ہوجائے گا۔  تاہم اگر لکوریا کی شکایت وقفہ وقفہ سے ہوتی ہو یعنی با وضو ہوکر وقتی فرض ادا کرنے کی مہلت مل جاتی ہو تو اس صورت میں مذکورہ خاتون شرعاً معذور شمار نہیں ہوگی، بلکہ وضو کے بعد جب جب لکوریا کی شکایت ہوگی اس کا وضو ٹوٹ جائے گا اور دوبارہ وضو کرنا اس کے لیے ضروری ہوگا۔

٢) مسئولہ صورت میں اگر اخراجِ ریح کا تقاضا ہو تو ریح کو بامشقت روک کر نماز مکمل کرنا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ اگر نماز قضا ہو رہی ہو تو نماز قضا کرنے کے بجائے ریح کو قابو کرکے نماز مکمل کرنا بہتر ہے۔ فتاوی شامی میں ہے:

" و صاحب عذر من به سلس بول لايمكنه إمساكه إو استطلاق بطن أو انفلات ريح ... إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً ؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم". (باب الحيض: مطلب في أحكام المعذور ٣٠٥/١ ط سعيد)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں