بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا طلا ق کا اختیار


سوال

نکاح   نامے پر موجود طلاق کے خانے میں  کٹ لگادیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ درست وجہ کے ہوتے ہوئے بھی طلا ق نہیں مانگ سکتی۔ توجہ کریں!

جواب

شریعت نے طلاق دینے کا اختیار اصلاً شوہر کو ہی دیا ہے، نکاح نا مے میں موجود تفویضِ طلاق کا خانہ لڑکی کو طلاق کا اختیار دینے کے لیے ہوتا ہے، یعنی مخصوص و مشروط صورتِ حال میں اسے طلاق واقع کرنے کا حق دیا جاتاہے، اس پر کٹ لگانے کی وجہ سے مناسب وجہ سے طلاق مانگنے کا اختیار ختم نہیں ہوتا، بلکہ اگر نباہ کی کوئی صورت نہ ہو  اور جانبین کے بزرگ بھی اسی میں عافیت سمجھیں کہ نکاح ختم کردا جائے تو لڑکی طلا ق یا خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے ، بلکہ کچھ رقم ادا کرکے  طلا ق بالعوض بھی حاصل کرسکتی ہے۔ یا اگر شوہر بہت ظا لم ہو اور نان نفقہ بھی نہ دیتا ہو تو اس کو یہ بھی اختیار حاصل ہوتاہے  کہ کورٹ میں ’’تعنت‘‘ کا دعوی دائر کرکے اس بات کو ثابت کرے  کہ یہ مجھے خرچہ نہیں دیتا اور اس بنیاد پر مسلمان قاضی دونوں کے نکاح کو فسخ بھی کرسکتا ہے۔  الغرض  کسی بھی مشکل صورتِ حال کے لیے راستے موجود ہیں ، لیکن اہم بات یہ ہے کہ حتی الوسع اس کی کوشش کی جائے کہ کسی طرح گھر نہ ٹوٹے، شریعت میں یہی مطلوب ہے۔ 

{وَلاَیَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلاَّ اَنْ یَّخَافَا اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِه  تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلاَ تَعْتَدُوْهَا  وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ} [البقرة : ۲۲۹ ] 
ترجمہ: اور تم کو یہ روا نہیں ہے کہ عورتوں کو دیا ہوا کچھ بھی مال اُن سے واپس لو ، مگر یہ کہ جب میاں بیوی اِس بات سے ڈریں کہ اللہ کے اَحکام پر قائم نہ رہ سکیں گے ۔ پس اگر تم لوگ اِس بات سے ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے تو اُن دونوں پر کچھ گناہ نہیں ہے اِس میں کہ عورت بدلہ دے کر چھوٹ جائے ، یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، سو اُن سے آگے نہ بڑھو ، اور جو کوئی اللہ کی حدود سے آگے بڑھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ 
نیز  روایات میں وارد ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں ثابت کے اخلاق اور اُن کی دین داری کے بارے میں تو کوئی عیب نہیں لگاتی ؛ لیکن مجھے اُن کی ناقدری کا خطرہ ہے ( اِس لیے میں اُن سے علیحدگی چاہتی ہوں ) تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  : ’’ اُنہوں نے جو  باغ تمہیں مہر میں دیا ہے وہ تم اُنہیں لوٹادوگی ؟ ‘‘ تو اہلیہ نے اِس پر رضامندی ظاہر کی ، تو پیغمبر علیہ السلام نے حضرت ثابت کو بلاکر فرمایا : ’’ اپنا باغ واپس لے لو اوراِنہیں طلاق دے دو ‘‘ ۔ ( ابوداؤد شریف / باب الخلع ۱ ؍ ۳۰۳ ، تفسیر ابن کثیر مکمل ۱۸۳-۱۸۵ ریاض ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200576

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں