بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لوگوں کا قرضہ ادا کرنے کے لیے سودی قرضہ لینے کا حکم


سوال

میں اس وقت بہت قرض دار  ہوں جس کو ادا کرنےکے لیے اس وقت سوائے بینک سے قرض لینے کے میرے پاس کوئی راستہ نہیں۔  آپ راہ نمائی فرمائیں!

جواب

جس طرح کسی اور کو سود پر قرض دینا حرام ہے اسی طرح سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے، اس لیے آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنا قرضہ ادا کرنے کے لیے کوئی جائز متبادل راستہ اختیار کریں،  سودی قرض لینا اُسی وقت جائز ہوسکتا ہے جب کہ اضطراری حالات پیدا ہوجائیں کہ بلاسودی قرض لیے زندگی گزارنا ہی مشکل ہو یا جان یا عزت کو شدید خطرہ ہو۔اگر ایسی صورت نہ ہو تو سودی قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»". (صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:۳ ؍ ۱۲۱۹ ، ط:داراحیاءالتراث العربی)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 137):

"وفي القنية من الكراهية: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح اهـ".

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 78):

"السادسة: الحاجة تنزل منزلة الضرورة، عامةً كانت أو خاصةً ... وفي القنية والبغية: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح". (انتهى)

کفایت المفتی میں ہے:

’’سود پر روپیہ قرض لینا جائز نہیں الا یہ کہ اضطراری حالت ہوجائے۔ محمد کفایت اللہ کان ﷲ لہ ،دہلی‘‘. (کفایت المفتی، کتاب الربوٰ، ج:۸ ؍ ۱۰۶ )

فتاوی محمودیہ (ج:۱۶ ؍ ۳۰۲ ) میں ہے:

’’سود لینا اور سود  دینا حرام ہے، اگر گزارہ کی کوئی صورت  نہ ہو تو محتاج کے لیے بقدر ضرورت سودی قرض لینے کی گنجائش ہے۔‘‘

فتاوی محمودیہ (ج:۱۶ ؍ ۳۰۵ ) میں ہے:

’’سود دینا حرام ہے، ایسے شخص پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے، حرام کا ارتکاب اضطرار کی حالت میں معاف ہے، پس اگر جان کا قوی خطرہ ہے یا عزت کا قوی خطرہ ہے، نیز اور کوئی صورت اس سے بچنے کی نہیں، مثلاً: جائیداد فروخت ہوسکتی ہے، نہ روپیہ بغیر سود کے مل سکتا ہے تو ایسی حالت میں زید شرعاً معذور ہے۔ اور اگر ایسی حالت نہیں، بلکہ کسی اور دنیوی کاروبار کے لیے ضرورت ہے یا روپیہ بغیر سود کے مل سکتا ہے یا جائیداد فروخت ہوسکتی ہے تو پھر سود پر قرضہ لینا جائز نہیں، کبیرہ گناہ ہے۔ ‘‘ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200803

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں