بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لولاک لما خلقت الافلاک حدیث ہے یا نہیں؟


سوال

'لولاك لما خلقت الأفلاك' یہ حدیث ہے یا نہیں؟ اگر اس جیسی مضمون کی کوئی حدیث ہو تو وہ بھی بتا دیں!

جواب

حدیث "لولاک لماخلقت الأفلاک"ان الفاظ کے ساتھ محدثین کے نزدیک ثابت نہیں، البتہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ ودیگر محدثین معنی کے اعتبار سے اسے درست قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے حضرت ابن عباس، حضرت عمر، حضرت سلمان رضی اللہ عنہم سے مرفوع روایات اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک اثر بھی پیش کرتے ہیں.

' لولاک لما خلقت الأفلاک، قال الصغاني: موضوع وأقول: لکن معناه صحیح، وإن لم یکن حدیثاً'۔ ( کشف الخفاء ۲/۱۴۸، الموضوعات الکبری /۷۰) 
' أتاني جبریل فقال: یا محمد لولاک ماخلقت الجنة، ولولاک ماخلقت النار'۔ (کنز العمال ۱۱/۱۹۴، رقم:۳۲۰۲۲)
' عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: أوحى الله إلى عیسی علیه السلام: یا عیسی آمن بمحمد وأمر من أدرکه من أمتک أن یؤمنوا به فلولا محمد ما خلقت آدم، ولولا محمد ماخلقت الجنة ولاالنار، ولقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب، فکتب علیه لاإله إلا الله محمد رسول الله فسکن'۔ (المستدرک للحاکم، مکتبة نزار مصطفیٰ الباز بیروت ۴/۱۵۸۳، رقم:۴۲۲۷)

محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ایک مختصر لیکن محقق مضمون لکھا تھا جو جامعہ کے ترجمان ماہنامہ "بینات "کے جمادی الاولی 1438ھ کے شمارے میں شائع ہوا ہے، لنک کے ذریعے جامعہ کی ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں: http://www.banuri.edu.pk/monthly-articles/1438/5/41

فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 143908200932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں