بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبیح فعل سے توبہ کیسے کی جائے؟


سوال

 جو لوگ بھیانک گناہ یا جرم جیسا کہ کسی لڑکے سے بدفعلی کے ارتکاب میں مبتلا ہوں، اور بعد از ارتکابِ فعل، فاعل کو اپنے گناہ پر ندامت ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواست گار ہو تو ایسی صورت میں کوئی کفارہ یا کوئی اور  سزا ہے؟

نوٹ:  اس حالت میں کہ اس جرم کے متعلق کسی کو معلوم بھی نہ ہو اور نہ ہی کوئی شکایت منظر عام پر آئی ہو۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ایسے شخص کو چاہیے کہ سچے دل سے اپنے اس قبیح فعل سے توبہ کرے، اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرے، اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے، بروں کی صحبت ترک کردے، البتہ اگر اس کا یہ قبیح عمل قاضی وقت کے سامنے خود اس کے اقرار سے یا شرعی گواہوں کے ذریعہ ثابت ہوجائے تو ایسی صورت میں قاضی وقت کو شرعاً اختیار ہوگا کہ تعزیراً جو سزا تجویز کرنا چاہے کر سکتا ہے، تاہم اس عمل کی تلافی کے طور پر شریعتِ مطہرہ میں کوئی کفارہ مقرر نہیں۔

الموسوعة الفقهية الكويتية ( ٣٥/ ٣٤٠ ) میں ہے:

"الْحُكْمُ التَّكْلِيفِيُّ: ٣ - اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ اللِّوَاطَ مُحَرَّمٌ؛ لأَِنَّهُ مِنْ أَغْلَظِ الْفَوَاحِشِ". ( إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام ٤ / ١٢٤، والإفصاح عن معاني الصحاح ٢ / ٢٣٨، والأم ٧ / ١٨٣، والمبسوط ٩ / ٧٧، والمغني لابن قدامة ٨ / ١٨٧، وكشاف القناع عن متن الإقناع ٦ / ٩٤، والكافي لابن عبد البر ٢ / ١٠٧٣).

"وَقَدْ ذَمَّهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ الْكَرِيمِ وَعَابَ عَلَى فِعْلِهِ فَقَال تَعَالَى: {وَلُوطًا إِذْ قَال لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَال شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَل أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ} (سورة الأعراف / ٨٠ - ٨١) وَقَال تَعَالَى: {أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَل أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ} (سورة الشعراء / ١٦٥ - ١٦٦) وَقَدْ ذَمَّهُ الرَّسُول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِهِ: لَعَنَ اللَّهُ مَنْ عَمِل عَمَل قَوْمِ لُوطٍ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ عَمِل عَمَل قَوْمِ لُوطٍ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ عَمِل عَمَل قَوْمِ لُوطٍ (أخرجه أحمد (١ / ٣٠٩) والحاكم (٤ / ٣٥٦) من حديث ابن عباس، وصححه الحاكم ووافقه الذهبي)

"عُقُوبَةُ اللاَّئِطِ فَذَهَبَ أَبُو حَنِيفَةَ إِلَى أَنَّهُ لاَيَجِبُ الْحَدُّ لِوَطْءِ امْرَأَةٍ أَجْنَبِيَّةٍ فِي غَيْرِ قُبُلِهَا وَلاَ بِاللِّوَاطَةِ بَل يُعَزَّرُ. وَقَال أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ: اللِّوَاطُ كَالزِّنَا فَيُحَدُّ جَلْدًا إِنْ لَمْ يَكُنْ أُحْصِنَ وَرَجْمًا إِنْ أُحْصِنَ. وَمَنْ تَكَرَّرَ اللِّوَاطُ مِنْهُ يُقْتَل عَلَى الْمُفْتَى بِهِ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ". ( فتح القدير مع الهداية ٤ / ١٥٠، والزيلعي ٣ / ١٨٠، وحاشية ابن عابدين ٣ / ١٥٥. (٥) الزيلعي ٣ / ١٨١) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200532

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں