بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظ ’’طلاک‘‘ سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے


سوال

میری امی نے میری ساس کو فون کیا, جس سے میرے شوہر کو غلط فہمی ہو گئی،  میری ساس نے کچھ اور بتایا اور وہ کچھ اور سمجھے، اور غصے میں آ گئے، میرے والدین کو غصے میں گالیاں دے رہے تھے،  پھر میری امی کو میسج کیا کہ تیرے کو میں طلاک دیتا ہوں، پھر میسج آیا  میری امی کے فون پر کہ طلاک دیتا ہوں، پھر میرے ابو کے فون پر آیا کہ تیری بیٹی کو طلاک دیتا ہوں، میرے شوہر کہہ رہے ہیں کہ میرا کوئی ارادہ نہیں تھا، اگر ارادہ ہوتا تو میں اپنی بیوی کے نمبر پر میسج کرتا اور اسی سے مخاطب ہوتا، اور میسج میں TALAK  لکھا ہے جس کا معنیٰ کچھ اور ہوتا ہے۔

اب مجھے بتائیں کہ کتنی طلاق واقع ہوئیں؟ اور اس کا کیا حل ہے؟

جواب

آپ کے شوہر نے جب پہلی مرتبہ آپ کی والدہ کے فون پر میسج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ  " تیرے کو میں طلاک دیتا ہوں" پھر دوسرا میسج کیا کہ " طلاک دیتا ہوں"  تو اس میں چوں کہ آپ کے شوہر نے آپ کی والدہ کو مخاطب کیا، آپ کو نہیں کیا،  اس لیے اس سے آپ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، لیکن جب آپ کے والد کے فون پر میسج کیا کہ  تیری بیٹی کو طلاک دیتا ہوں تو اس سے آپ پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہو گئی ( اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ   TALAK لکھا جائے یا TALAQ  ، دونوں طرح لکھنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے)  اب عدت میں شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے، عدت میں رجوع کر لیا تو نکاح برقرار رہے گا اور آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق حاصل ہو گا اور اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت کے بعد نئے سرے سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرنا ضروری ہو گا، رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر یہ کہہ دے کہ میں نے رجوع کیا، ایسا کہنے سے رجوع ہو جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 20)

''(قوله: وأما الطلاق فيقع بها إلخ) أي بالألفاظ المصحفة كتلاق وتلاك وطلاك وطلاغ وتلاغ. قال في البحر: فيقع قضاء ولا يصدق إلا إذا أشهد على ذلك قبل التكلم بأن قال: امرأتي تطلب مني الطلاق، وأنا لا أطلق، فأقول هذا، ولا فرق بين العالم والجاهل، وعليه الفتوى''.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں