بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاعلمی مین طلاق دینے کا حکم


سوال

 ایک آدمی جس کے سر پر بچپن سے کسی بڑے کا سایا یا ہاتھ نہیں ہے کچھ سمجھانے یا بتانے کے لیۓ، وہ آدمی خدا کو حاضر ناظر جان کے قرآن پے ہاتھ رکھ کے حلفیہ یہ بات کہتا ہے کے اسے بچپن سے یہ پتا ہے کے طلاق کا لفظ جب تک ٣ بار ایک ساتھ نہیں کہا جاتا جب تک طلاق نہیں ہوتی اسے یہ نہیں پتا تھا کے اگر ایک بار طلاق کا لفظ بیوی کو بول دیا جائے تو ایک بار طلاق واقعی ہوجاتی ہے. اس آدمی کی شادی ہوتی ہے اور اسکے بچے بھی ہیں وہ اپنی بیوی کے ساتھ ١٠ سال گزرتا ہے اور اچانک ان دونو شوہر اور بیوی کی لڑائی ہوتی ہے اور شوہر اپنی بیوی کو ٢ بار کہتا ہے کے میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اور خاموش ہوجاتا ہے کیوں کے اسے یہ پتا ہے کے اگر ٣ بار طلاق کے لفظ ایک ساتھ بول دے تو طلاق ہوجاے گی وہ یہ سمجھتا اور جانتا کے ٢ بار بولنے سے کچھ نہیں ہوتا لیکن بعد میں اسکی بیوی کہتی ہے ایک سال پہلے ایک بار تمنے مجھے یہ طلاق کا لفظ کہا تھا اسلئے ہماری طلاق واقعی ہوگئی، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کے ایسے حالات میں کیا طلاق واقع ہوگی جب کے وہ آدمی خدا کو حاضر ناظر جان کے قرآن پے ہاتھ رکھ کے حلفیہ یہ بات کہتا ہے کے اسے بچپن سے یہ پتا ہے کے طلاق کا لفظ جب تک ٣ بار ایک ساتھ نہیں کہا جاتا جب تک طلاق نہیں ہوتی اسے یہ نہیں پتا تھا کے اگر ایک بار طلاق کا لفظ بیوی کو بول دیا جائے تو ایک بار طلاق واقعی ہوجاتی ہے. ان باتوں کی روشنی میں آپ کیا فرماتے ہیں آیا کے طلاق واقعی ہو گئی ہے یا نہیں اسلئے کے جس بارے میں انسان کچھ جانتا نہ ہو اور اسے وہ گناہ ہو جائے تو اللہ تعالی کیا فرماتا ہے ایسے آدمی کے لئے یا اسکے لئے کیا فیصلہ ہے جو کام اسے انجانے میں ہوا ہو.

جواب

ایک مسلمان کے ذمہ اللّہ پاک نے جو فراٗض عائد کیئے ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کسی بھی معاملہ کو شروع کرنے سے پہلےاس کے شرعی مسائل کا علم حاصل کرے، مذکورہ شخص نے جب شادی کی تھی تو نکاح اورطلاق کے بنیادی مسائل کا جاننا اس کے ذمہ فرض تھا،نیز ایک اسلامی ملک میں رہتے ہوئے جہاں دین کا علم حاصل کرنے سے کوئی مانع موجود نہیں ہے لاعلمی شرعاعذر نہیں ہے، ان دو بنیادی مقدمات کے بعد  آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس شخص نے جب اپنی بیوی کو متفرق اوقات مین تین طلاق دے دی ہیں تو مجموعی طور پر تینوں واقع ہوچکی ہیں، اب رجوع یا دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں ہے،اس شخص کا یہ سمجھنا کہ تین سے کم مرتبہ طلاق کے الفاظ کے استعمال سے طلاق نہیں ہوتی غلط ہے،طلاق کے صریح الفاظ بلا نیت وارادہ بھی زبان سے ادا کردئیے گئے یا لکھ دیے گئےتو وہ اپنا اثر دکھاتے ہیں اور طلاق ہوجاتی ہے۔ واللّہ اعلم


فتوی نمبر : 143607200031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں