بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قومی بچت اسکیم کے تحت ملنے والے نفع کاحکم


سوال

میری عمر69سال ہے،میں ایک ریٹائراندگی گزاررہاہوں،مجھے کوئی پنشن وغیرہ نہیں ملتی،صرف ایک چھوٹی سی نوکری کررہاہوں اپنے گزارے کے لیے،میرے اوپرایک بیٹی اوربیوی کی کفالت کی ذمہ داری ہے،بیٹی مطلقہ ہے اوراس کے ساتھ ایک چھ سالہ بچی بھی ہے۔میں اس عمرمیں کسی زیادہ بوجھ یاکاروبار نہیں کرسکتا،اس لیے کہ جوکچھ سرمایہ ہے کاروبارمیں لگاناایک خطرہ ہے،میری اہلیہ بھی مختلف امراض کاشکارہے جس کے علاج وغیرہ پربھی اخراجات آتے ہیں،مجھے ریٹائرمنٹ پرکچھ رقم ملی تھی جومیں نے قومی بچت اسکیم کے ایک مخصوص اکاونٹ میں رکھوادی،یہ اکاونٹ حکومت کی طرف سے ساٹھ سال سے اوپرکے افراداوربیوہ عورتوں کے لیے مخصوص ہے،کیامیرے لیے اس سے منافع لیناجائزہے روز مرہ اخراجات کے لیے؟اگرنہیں توکیامیں کسی اسلامک بینک میں رکھواکرنفع لے سکتاہوں؟یہی میرے لیے ایک محفوظ ذریعہ آمدن ہے۔

جواب

قومی بچت اسکیم کے تحت ملنے والامنافع بھی سودہے ،اس کااستعمال جائزنہیں ہے،موجودہ اسلامک بینکنگ کانظام مروجہ سودی نظام سے کچھ زیادہ فرق نہیں رکھتااس لیے کسی اسلامی بینک میں رقم رکھوانااوراس پرنفع لیناسود سے خالی نہیں ہے۔پوری زندگی حلال پراکتفاء کرنااوراخیرعمرمیں سودکے لین دین میں ملوث ہوجانانقصان دہ  ہے۔کسی معتبراوراماتندارتاجرکے ساتھ کاروبار میں رقم لگادی جائے اورشراکت کی بنیادپرجوفیصدی نفع ملے گاوہ جائزہے،یہ صورت سابقہ دونوں طریقوں کے بدلہ اختیارکی جاسکتی ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143701200015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں