بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نماز کہاں پڑھے؟


سوال

قضا نماز گھر میں پڑھ سکتے ہیں؟  اس کی دلیل کیا ہے؟

جواب

مساجد پنج وقتہ فرض نمازوں کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و ذکر کے لیے بنائی گئی ہیں، تاہم اس امت کی خصوصیت یہ ہے کہ پوری دھرتی اس کے لیے مسجد بنادی گئی ہے،  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جعلت لي الأرض مسجداً وطهوراً‘‘۔ بہرحال اہتمام تو اسی بات کا ہونا چاہیے کہ نماز اپنے مقررہ اوقات میں مساجد میں جماعت کی صورت میں ادا کی جائے، تاہم کسی عذر (سفر وغیرہ) کی وجہ سے اگر مسجد میں باجماعت نماز ادا نہ کرسکے تو  کسی بھی پاک جگہ پر (خواہ راستہ ہو  یا  میدان یا گھر )  کہیں بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے، نماز کی صحت کے لیے مسجد ہونا شرط نہیں ہے۔ الحاصل جس طرح وقتی ادا نماز مسجد یا مسجد کے علاوہ کسی بھی جگہ پڑھی جاسکتی ہے، اسی طرح قضا نماز بھی مسجد اور غیرِ مسجد (گھر وغیرہ) میں پڑھی جاسکتی ہے۔ اس کے جواز کے لیے مستقل دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، عمومات سے یہ بات ثابت ہے۔ 

البتہ  قضا نماز مسجد میں پڑھنا افضل ہے یا گھر پر؟ تو اس بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ چوں کہ نماز قضا کرنا گناہ ہے، اور سب کے سامنے قضا نماز ادا کرنے میں اپنی غفلت وکوتاہی (اور ایک گونہ گناہ) کا اظہار ہے، اس لیے جن صورتوں اور جن اوقات میں مسجد میں قضا نماز پڑھنے سے لوگ سمجھ جائیں کہ یہ قضا نماز ادا کررہاہے، ان اوقات میں قضا نماز گھر میں ادا کرنا بہتر ہے، اور جن اوقات میں لوگوں کو اندازا نہ ہو کہ یہ قضا نماز پڑھ رہاہے یا نوافل ادا کررہاہے ان اوقات میں نمازی کو اختیار ہے، چاہے تو مسجد میں انفرادی طور پر قضا نماز ادا کرے چاہے تو گھر یا کسی دوسری جگہ ادا کرے۔ بہرحال قضا نماز  مسجد میں پڑھنا ضروری نہیں۔  رسول اللہ ﷺ نے میدان میں بھی قضا نماز پڑھی ہے،جیسا کہ ’’لیلۃ التعریس‘‘ کا مشہور واقعہ ہے کہ رسول ﷺ نے ایک وادی میں پڑاؤ  ڈالا، چنانچہ تمام لوگ سو گئے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نگرانی کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن ان پر بھی نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ بھی نیند کی آغوش میں چلے گئے، اور صبح ہو گئی، جب سورج کی شعائیں آپ ﷺ کے اوپر پڑیں تو سب سے پہلے آپ بیدار ہوئے، اور بیدار ہوتے ہی آپ ﷺ نے سب کو وہاں سے کوچ کرنے کا حکم فرمایا، اور اس وادی سے آگے بڑھ کر کچھ فاصلے طے کرکے آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی اور آپ  ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز فجر  باجماعت قضا پڑھائی ۔

نیز رسول اللہ کی جماعت کی نماز ایک مرتبہ نکل گئی تو آپ نے گھر میں جماعت کروائی، اگرچہ اس وقت آپ ﷺ کی نماز قضا نہیں ہوئی تھی، تاہم جماعت نکلنے کی صورت میں آپ ﷺ نے مسجد میں نماز ادا فرمانے کے بجائے گھر والوں کو جمع کرکے باجماعت نماز ادا فرمائی، اس سے بھی قضا نماز کے گھر میں ادا کرنے کا جواز بلکہ اولیٰ ہونا معلوم ہورہاہے۔

" المعجم الأوسط للطبراني" میں ہے:

"أن رسول الله صلی الله علیه وسلم أقبل من نواحي المدینة یرید الصلاة فوجد الناس قد صلَّوا، فمال إلی منزله فجمع أهله فصلّی بهم". (رقم: ۴۶۰۱)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201471

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں