بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہوتوتخمینہ لگاکر نمازیں قضا کی جائیں


سوال

 اگر قضا نماز کا حساب لگانا ناممکن ہو توکیا حکم ہوگا؟ میں اگست 1981 میں پیدا ہوا ہوں اور اگر 15 سال میں بالغ ہوا ہوں تو اگست 1996 میں جب میں بالغ ہوا تو میں اکثر نمازیں پڑہتا تھا،لیکن 1999 کے بعد میں دین سے دور ہوگیا اور 2006 میں تبلیغ میں جانے کے بعد قریب آیا، اس کے بعد سے الحمدللہ نماز قضا نہیں ہوئی، لیکن 1999 سے 2006 کا حساب لگانا اس لیے مشکل ہے کہ اس عرصے میں کچھ نہ کچھ نماز ادا کی ہے، جیسے: رمضان میں اور فرض حج ادا کیا تو 40 دن حج کے اور کافی عرصہ اس کے بعد بھی پابندی کی۔ اسی طرح دو سے تین یا زیادہ مرتبہ عمرہ پر گیا تب بھی پابندی کی اور واپس آکر بھی پابندی کی۔ 2006 فروری میں چار ماہ تبلیغ پر جانے سے کچھ عرصہ قبل سہ روزہ وغیرہ لگنے شروع ہو گئے تھے،اس لیے  نماز کا کافی پابند ہوگیا تھا یہ عرصہ کتنا تھا یاد نہیں،  میں جتنی کوشش کرتا ہوں حساب لگانے کی نہیں لگاپاتا، برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

جواب

قضا نمازوں کا قطعی حساب لگانامشکل ہوتوایک اندازہ اورتخمینہ مقررکردے،اور اسی اندازے (یعنی غالب گمان) کے مطابق فوت شدہ نمازوں کواداکرناشروع کردے،مثلاً 1999سے 2006تک سات سال بنتے ہیں، اس دوران کچھ عرصہ نمازیں اداکی ہیں، ان کاتخمینہ لگالیں  کہ وہ متفرق ایام کتنے ماہ بنتے ہیں ، ان مہینوں کونکال کرباقی جوعرصہ بنتاہے اسے تحریرکرکے قضاشدہ نمازوں کی ادائیگی شروع کردیں۔(امدادالاحکام،1/668-فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،4/258،دارالاشاعت)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143807200008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں