بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر فروخت شدہ گاڑی فروخت کنندہ کن شرائط پر دوبارہ تبدیل یا خرید سکتا ہے؟


سوال

قسطوں پر فروخت شدہ گاڑی فروخت کنندہ دوبارہ کن شرائط پر گاڑی تبدیل یاخرید سکتا ہے جب کہ گاڑی پر بقایہ جات باقی ہیں؟

جواب

قسطوں پر گاڑی فروخت کرنے کے بعد خریدنے والا اس کا مالک بن جاتا ہے، اور اس کا ثمن خریدنے والے کے ذمہ دین ہوتا ہے، اگراس گاڑی  کی مکمل اقساط کی ادائیگی سے پہلے گاڑی فروخت کرنے والا دوبارہ گاڑی یہی گاڑی دوبارہ لینا چاہے تو اس کی چند صورتیں ہیں:

(1)  قسطوں کی ادائیگی سے پہلے فروخت کرنے والا، گاڑی جتنے میں فروخت کی تھی اس سے کم قیمت پر خرید رہا ہے تو یہ صورت جائز نہیں ہے۔

(2) خریدار کی رضامندی سے اس گاڑی کو واپس کررہا ہے تو یہ”اقالہ“ ہے، جو  متعاقدین کے حق میں فسخِ بیع ہے ، لہذا جتنے میں فروخت کی تھی اتنے میں ہی واپس کرنا لازم ہوگی۔

(3) قسطوں کی ادائیگی سے پہلے فروخت کرنے والا، گاڑی جتنے میں فروخت کی تھی اس سےزیادہ  یا برابر  قیمت پر خرید رہا ہے تو یہ صورت جائز ہے۔

(4) فروخت کرنے والا خلافِ جنس سے اس کو خرید ے، مثلاً گاڑی پیسوں کے بدلے فروخت کی تھی اب واپس کوئی اور چیز دے کر لے تو یہ صورت بھی جائز ہے۔

(5) گاڑی میں کوئی عیب پیدا ہوگیا، یا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس صورت میں اصل قیمت سے کم ، زیادہ، اور برابری تینوں صورتوں میں خریدنا جائز ہے۔

جن صورتوں میں فروخت کرنے والے لیے کے گاڑی لیناجائز ہے ان میں یہ شرط بھی ہے کہ قسطوں پر گاڑی خریدنے والے نے اس پر قبضہ کرلیا ہو، اس لیے کہ منقولی چیز  کی بیع قبضہ سے پہلے جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 73):
"(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئاً بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا خلافاً للشافعي (وشراء من لاتجوز شهادته له) كابنه وأبيه (كشرائه بنفسه) فلا يجوز أيضاً خلافاً لهما في غير عبده ومكاتبه (ولابد) لعدم الجواز (من اتحاد جنس الثمن) وكون المبيع بحاله (فإن اختلف) جنس الثمن أو تعيب المبيع (جاز مطلقاً)كما لو شراه بأزيد أو بعد النقد.

(قوله: وفسد شراء ما باع إلخ) أي لو باع شيئاً وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لايجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالاً أو مؤجلاً هداية، وقيد بقوله: وقبضه؛ لأن بيع المنقول قبل قبضه لايجوز ولو من بائعه كما سيأتي في بابه، والمقصود بيان الفساد بالشراء بالأقل من الثمن الأول. قال في البحر: وشمل شراء الكل أو البعض. 

(قوله: جاز مطلقاً) أي سواء كان الثمن الثاني أقل من الأول أو لا؛ لأن الربح لايظهر عند اختلاف الجنس. اهـ منح؛ ولأن المبيع لو انتقص يكون النقصان من الثمن في مقابلة ما نقص من العين سواء كان النقصان من الثمن بقدر ما نقص منها أو بأكثر منه بحر عن الفتح (قوله: كما لو شراه إلخ) تشبيه في الجواز مع قطع النظر عن قوله مطلقاً (قوله: بأزيد أو بعد النقد) ومثل الأزيد المساوي كما في الزيلعي، وهذا قول المصنف بالأقل قبل نقد الثمن". فقط واللہ اعلم
 


فتوی نمبر : 144004200847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں