بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی ادائیگی کی وسعت ہونے کے با وجود ٹال مٹول کرنا اور نفلی حج پر جاتے رہنا


سوال

ایک شخص نے کسی سے کچھ رقم ادھار لی اس شرط پر کہ ایک سال میں واپس کر دے گا اور رقم ہونے کے  باوجود  ادھار رقم واپس نہ  کرنا اور فرض حج ادا ہونے کے باوجود دو سال مسلسل نفل حج ادا کرنا اور ادھار واپس نہ  کرنا کیا ایسے شخص کے لیے نفل حج ادا کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرض اتارنے کی قدرت ہونے کے باوجود قرض اتارنے میں ٹال مٹول کرنا اور قرض خواہوں کی اجازت کے اور قرض کی ادائیگی کا انتظام کیے بغیر لاکھوں روپے نفلی حج پر صرف کر دینا ظلم ہے، اور ایسے شخص کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے شرعاً ظالم کہا جائے گا، نیز  استطاعت کے باوجود اگر کوئی قرض نہ اتارے تو اندیشہ ہے کہ کہیں اس وعید کا مستحق نہ بن جائے جس کے مطابق مقروض شہید بھی ہوجائے تو قرض کے وبال سے اسے خلاصی نہیں ملے گی، جب کہ شہید کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ اس پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر میت مقروض نہ ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھاتے اور اگرمیت مقروض ہوتی اور اپنے پیچھے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا اور کوئی اس کے قرض کی ضمانت بھی نہ لیتا تو صحابہ سے کہہ دیتے کہ اپنے بھائی کا جنازہ ادا کرلو، اور آپ ﷺ ایسے افراد کی نمازِ جنازہ ادا نہ فرماتے؛ تاکہ امت کو قرض میں ٹال مٹول کی برائی اور اس کی شدت کا احساس ہو۔ بعد میں جب آں حضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فتوحات عطا فرمائیں تو پھر آپ ﷺ جنازے کے موقع پر یہ سوال فرماتے، اگر میت مقروض ہوتی اور اس نے ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا تو آپ ﷺ خود اس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام فرماتے اور نمازِ جنازہ ادا فرماتے۔

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعُ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.  وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّى عَلَيْهِ الدَّيْنُ، فَيَسْأَلُ: هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ مِنْ قَضَاءٍ؟ فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ وَفَاءً صَلَّى عَلَيْهِ، وَإِلَّا قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ قَالَ: أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّيَ، وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ".

صورتِ مسئولہ میں قرض دار کے لیے قرض ادا کرنے سے پہلے قرض خواہوں کی اجازت کے بغیر حج کے لیے جانا مکروہ ہے، لیکن اگر قرض دینے والے لوگ فی الحال قرض کا مطالبہ نہیں کر رہے اور وہ خوشی سے حج کے  لیے  جانے کی اجازت دے دیں یا قرض دار اپنے قرض کا کسی کو ذمہ دار بنا دے اور اس پر قرض دینے والوں کو اطمینان ہو جائے اور وہ اجازت دے دیں تو حج پر جا سکتے ہیں، لہذا مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنا قرضہ چکائے اس کے بعد حج و عمرے کرتا رہے، قرض کی ادائیگی میں وسعت ہونے کے باوجود تاخیر کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 221):

"ويكره الخروج إلى الغزو والحج لمن عليه الدين وإن لم يكن عنده مال ما لم يقض دينه إلا بإذن الغرماء، فإن كان بالدين كفيل إن كفل بإذن الغريم لايخرج إلا بإذنهما، وإن كفل بغير إذن الغريم لايخرج إلا بإذن الطالب وحده، وله أن يخرج بغير إذن الكفيل، كذا في فتاوى قاضي خان في المقطعات".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 462):

"مطلب في قولهم: يقدم حق العبد على حق الشرع. (قوله: لتقدم حق العبد) أي على حق الشرع لا تهاوناً بحق الشرع، بل لحاجة العبد وعدم حاجة الشرع ألا ترى أنه إذا اجتمعت الحدود، وفيها حق العبد يبدأ بحق العبد لما قلنا؛ ولأنه ما من شيء إلا ولله تعالى فيه حق، فلو قدم حق الشرع عند الاجتماع بطل حقوق العباد".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں