بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام  اس شخص کے بارے میں کہ:

ایک بندہ کسی کاپانچ لاکھ کا مقروض ہے اور جب قرض دار اس سے قرض کو طلب کرتا ہے تو اس کے ساتھ ٹال مٹول کرتا ہے اور نہیں دیتا، پھر قربانی کے وقت پر لاکھوں روپیوں کا جانور لے کر آجاتا ہے۔ کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟ کیا اس کا قربانی کرنا درست ہے؟ برائے مہربانی جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں!

جواب

بصورتِ صدقِ سوال مذکورہ شخص کا قربانی کرنا ثواب کاکام ہے اور قرض ادا نہ کرنا گناہ ہے، اس لیے ایک پہلو سے وہ اطاعت گزار اور دوسرے پہلو  سے گناہ گارہے، تفصیل درج ذیل ہے:

 گناہ گار اس وجہ سے ہے کہ قرض کا ادا کرنا مقروض پر لازم ہے، اور باوجود وسعت کے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

صحیح بخاری ،  کتاب الاستقراض
"باب : ادائیگی میں مال دار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے "
حدیث نمبر : 2400
''حدثنا مسدد، حدثنا عبد الأعلى، عن معمر، عن همام بن منبه، أخي وهب بن منبه أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‏مطل الغني ظلم‏''. 
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ، وہب بن منبہ کے بھائی نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مال دار کی طرف سے ( قرض کی ادائیگی میں ) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔

لہذا مذکورہ شخص پر قرض ادا کرنا فی الفور لازم ہے۔قرض   کی رقم منہا کرکے بھی اگر وہ صاحبِ نصاب ہو تو اس کی وجہ سے اس پرقربانی بھی لازم ہوگی۔اور اگر قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد وہ صاحبِ نصاب نہ رہے تو وہ نفل قربانی ادا کررہا ہے، اس صورت میں اسے قربانی کی بجائے قرض اد اکرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں