بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض دار کا حج پر جانا


سوال

میں دبئی میں کام کرتا تھا اس وقت مجھ پر حج فرض تھا, لیکن بعد میں مجھ پر ایسی مجبوری آئی کہ فوراً پیسہ ختم ہو گیا، اب میں سعودی آیا ہوں اور میرے اوپر 11000 ریال قرض بھی ہے، میرا دل کرتا ہے کہ حج پر اسی سال جاؤں ، اب میرے پاس دو راستے ہیں یا قرض ختم کروں یا حج کروں، اس میں سے کون سا راستہ اختیار کروں؟

جواب

قرض دار کے لیے قرض ادا کرنے سے پہلے قرض خواہوں کی اجازت کے بغیر حج کے لیے جانا مکروہ ہے، لیکن اگر قرض دینے والے لوگ فی الحال قرض کا مطالبہ نہیں کر رہے اور وہ خوشی سے حج کے  لیے  جانے کی اجازت دے دیں یا قرض دار اپنے قرض کا کسی کو ذمہ دار بنا دے اور اس پر قرض دینے والوں کو اطمینان ہو جائے اور وہ اجازت دے دیں تو حج پر جا سکتے ہیں۔

الفتاوى الهندية (1/ 221):
"ويكره الخروج إلى الغزو والحج لمن عليه الدين وإن لم يكن عنده مال ما لم يقض دينه إلا بإذن الغرماء، فإن كان بالدين كفيل إن كفل بإذن الغريم لايخرج إلا بإذنهما، وإن كفل بغير إذن الغريم لايخرج إلا بإذن الطالب وحده، وله أن يخرج بغير إذن الكفيل، كذا في فتاوى قاضي خان في المقطعات".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 462):
"مطلب في قولهم: يقدم حق العبد على حق الشرع.
(قوله: لتقدم حق العبد) أي على حق الشرع لا تهاوناً بحق الشرع، بل لحاجة العبد وعدم حاجة الشرع ألا ترى أنه إذا اجتمعت الحدود، وفيها حق العبد يبدأ بحق العبد لما قلنا؛ ولأنه ما من شيء إلا ولله تعالى فيه حق، فلو قدم حق الشرع عند الاجتماع بطل حقوق العباد". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں