بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانور میں مشترکہ طور پر ایک حصہ آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنا


سوال

 ایک گائے میں چھ آدمی شریک ہوئے سب نے برابر پیسے دیے اور ایک ایک حصہ لیا اور ساتویں حصے میں سب نے مشترکہ طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کی نیت کی ۔کیا اس طرح کرنا درست ہے ؟ جواب ذرا جلدی مرحمت فرمادیں اگر ممکن ہو۔ مسئلہ فرضی نہیں حقیقی ہے۔

جواب

متعدد  افراد مل کر ایک حصہ آپ ﷺ کی طرف سے یا اپنے والدین کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو  راجح قول کے مطابق قربانی صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے  کہ سب لوگ  اپنے حصے کی رقم کسی ایک کو ہبہ (گفٹ) کردیں، پھر ایک کی طرف سے نفلی قربانی حضورﷺ یا اپنے مرحومین کے ایصال ِ ثواب کے لیے کی جائے۔اس سے قربانی کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور ان شاء اللہ باقی شرکاء (جنہوں نے اپنے حصے کی رقم ہبہ کردی ہے وہ) بھی پورے ثواب کے حق دار ہوں گے۔

      ''بدائع الصنائع'' میں ہے:

'' وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.

فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لايذبح من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟

(فالجواب): أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء''.

(5/70، کتاب الاضحیہ، ط: سعید)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں