اگرکوئی قربانی کا جانور خریدے اوراس کو بیچ کراس کی رقم سے دو جانورخرید لے کیا ایسا کر نا صحیح ہے؟
اگر مال دار آدمی یعنی صاحبِ نصاب شخص نے قربانی کا جانور قربانی کی نیت سے لیا تو اس کے لیے اس کو فروخت کرنا مناسب نہیں ہے، لیکن اگر فروخت کرلیا تو بیع درست ہوجائے گی، پھر اس کے بعد دوسرا جانور اس سے کم قیمت کا نہ خریدے، اگر دوسرا جانور پہلے سے کم قیمت پر لیا تو پہلے اور دوسرے جانور کی قیمت میں جتنا فرق ہو وہ صدقہ کردینا ضروری ہے۔ پس صورتِ مسئولہ میں پہلا جانور جتنی قیمت پر فروخت کیا ہو اس سے کم قیمت پر دو جانور خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی، البتہ کل حاصل شدہ رقم سے اگر دو جانور خرید لیے تو اس کی اجازت ہوگی، تاہم اگر پہلے بڑے جانور میں کوئی اور شریک نہیں تھا یا پہلا چھوٹا جانور تھا تو اسے فروخت کرنے کے بعد حاصل شدہ رقم سے جو دو جانور خریدے ہیں اگر اس میں کسی اور کو شرک نہ کیا ہو تو پہلے جانور کی قربانی سے واجب ادا ہوجائے گا اور دوسرے جانور کی قربانی نفل شمار ہوگی۔
تنوير الأبصار مع الدر المختار :
"(وفقير) عطف عليه (شراها لها)؛ لوجوبها عليه بذلك حتى يمتنع عليه بيعها، (و) تصدق (بقيمتها غني شراها أولا)؛ لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها. (قوله: لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء، وهذا ظاهر الرواية؛ لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب، وهو النذر بالتضحية عرفاً، كما في البدائع". ( شامي، ٦/ ٣٢١)
وفیه أیضاً :
"ويكره أن يبدل بها غيرها أي إذا كان غنياً، نهاية، فصار المالك مستعيناً بكل من يكون أهلاً للذبح آذناً له دلالةً اهـ". ( ٦/ ٣٢٩)
الفتاوى الهندية :
"ولو باع الأضحية جاز، خلافاً لأبي يوسف رحمه الله تعالى، ويشتري بقيمتها أخرى ويتصدق بفضل ما بين القيمتين". ( ٥/ ٣٠١)
خلاصة الفتاوی میں ہے:
"ولو ضحی بأكثر من واحدة، فالواحدة فريضة و الزيادة تطوع عند عامة العلماء". (٤/ ٣١٥)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200153
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن