بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآنی اشاعتی اداروں کو زکاۃ دینا/ کیا زکاۃ کی رقم میل ہے؟


سوال

 قرآن کی اشاعت سے منسلک اداروں کو کیا زکاۃ دی جا سکتی ہے ؟

 کیا زکاۃ کی رقم کثیف یعنی ناپاک ہوتی ہے ؟ کیا اسی وجہ سے اس کو اپنے مال میں سے نکال دیا جاتا ہے؟ اس رقم کی حیثیت واضح کیجیے!

جواب

  زکاۃ  ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے، لہذا زکاۃ  کی رقم سے مذکورہ اداروں کی ضروریات پوری کرنے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔  البتہ اگر یہ ادارہ  زکاۃ کی رقم سے قرآن مجید وغیرہ کسی مستحق کو مالک بنا کردیں تو  تب زکاۃ ادا ہوجائے گی۔

2۔۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ زکاۃ مال کا میل ہے، مشکاۃ المصابیح میں ہے:”عبد المطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا  : بلاشبہ یہ زکاۃ لوگوں کے مالوں کا میل ہے“ (مشکاۃ، 1/161، قدیمی)

 اللہ تعالیٰ نے اسی میل سے مالوں کو پاک صاف کرنے کے لیے فرمایا : ﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا﴾ (سورۂ توبہ 103)   ترجمہ: آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ (جس کو یہ لائے ہیں) لیجیے جس کے  (لینے کے) ذریعہ سے آپ ان کو (گناہ کے آثار سے) پاک کردیں گے ۔ (از بیان القرآن )

اسی طرح سنن ابی داؤد میں ایک حدیث ہے: اللہ تعالیٰ نے زکاۃ اس لیے فرض کی ہے تاکہ بقیہ مالوں کو پاک صاف کرے۔ (ابوداؤد، 1/241، رحمانیہ)

یعنی جب صاحبِ نصاب آدمی کے نصاب کے مال پر ایک سال  کی مدت گزرجاتی ہےتو اس کے مال کی میل نکل کر اوپر آجاتی ہے، اگر وہ زکاۃ ادا کردیتا ہے تو وہ میل اور گند سے پاک ہوجاتا ہے ، اگر زکاۃ ادا نہیں کرتا تو وہ میل دوبارہ اس مال میں شامل ہوجاتا ہے اور پورا مال خراب ہوجاتا ہے اور پھر وہ مال طرح طرح کی ناگہانی اور غیر متوقع آفتوں میں خرچ ہوکر ضائع ہوجاتا ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200278

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں