بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن اور حدیث میں فرق


سوال

قرآن اور حدیث میں فرق بیان کریں؟

جواب

واضح رہے کہ وحی کی دوقسمیں ہیں ۔

(۱) متلو (جو تلاوت کی جاتی ہے)۔
(۲) اور غیر متلو (جو تلاوت نہیں کی جاتی ہے)۔
وحی متلو کا نام قرآن ہے جن کے معانی اور الفاظ دونوں اللہ کی جانب سے ہیں۔

اور غیر متلو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے الفاظ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں ، اور معانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ۔ (معارف القرآن۲؍۵۴۳و۵۴۴)

دوسرا فرق یہ ہے قرآن سارا کا سارا بالکل انہی الفاظ کے ساتھ  تواتر کے ساتھ  منقول ہوکر ہم تک پہنچا ہے جس طرح حضور ﷺ پر نازل ہوا تھا، جب کہ حدیث کا کچھ ذخیرہ جس طرح تواتر کے ساتھ منقول ہوا ہے اسی طرح ایک بہت  بڑا حصہ بغیر تواتر کے اور روایت بالمعنیٰ کے ساتھ بھی منقول ہوا ہے، کیوں کہ جو راوی لغتِ عرب کا ماہر اور ان کے طرز کلام سے وافق ہوتا تھا اس کے لیے حدیث کو معنیٰ کے ساتھ روایت کرنا جائز تھا، چناں چہ اسی وجہ سے قرآ ن کی کسی ایک بھی آیت کا انکار کرنے والا کافر ہوجائے گا، جب کہ حدیث  کی ایک قسم یعنی  متواتر کے علاوہ دوسری اقسام کا انکار کرنے سے فسق تو لازم آتا ہے، لیکن کفر لازم نہیں آتا۔

تیسرا فرق یہ ہے کہ بہت سے احکام  ایسے بھی ہیں جن کا براہِ راست تعلق صرف قرآن کے الفاظ سے ہے، جیسے نماز کے صحیح ہونے کے لیے قراءت ، بخلاف حدیث کے کہ اس کے الفاظ سے براہِ راست احکام کاتعلق نہیں ہے۔

چوتھا فرق یہ ہے کہ قرآن وحی الٰہی ہونے کے ساتھ کلامِ الٰہی بھی ہے، جب کہ حدیث وحیِ الٰہی تو ہے، لیکن حدیث کو کلام الٰہی نہیں کہا جا سکتا ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143906200110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں