بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبلہ کی طرف لیٹے ہوئے شخص کے سامنے نماز پڑھنا


سوال

کوئی بندہ کسی کمرے میں قبلہ کی طرف چارپائی لگا کے سویا ہوا ہے, کمرے کی حالت کچھ اس طرح ہے کوئی نماز پڑھنا چاہےتو وہ سویا ہوا سامنے اس طرح ہو جاتا ہے"جیسے نماز جنازہ "میں سامنے ہوجاتاہے۔ اسی حالت میں نماز پڑھنے کیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جگہ کی تنگی کی بنا پر مذکورہ  طریقے سے نمازی کے سامنے سوئے ہوئے شخص کے سامنے نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس سونے والے کا چہرہ  نمازی کے چہرے کے سامنے نہ ہو، تاہم اگر بے دھیانی میں اس کا چہرہ سامنے ہو جائے تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ رات کو تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔ اور میں آپ کے اور دیوارِ قبلہ کے درمیان میں اس طرح سامنے لیٹی رہتی تھی جیسے جنازہ سامنے رکھا جاتا ہے، پس جب آپ ﷺ وتر  پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھ کو بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے :   حضرت عائشہ   رضی اللہ تعالی عنہاسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رات کو نماز پڑھتے اور میں آپ ﷺ اور قبلہ کے درمیان جنازہ کی طرح لیٹی ہوئی ہوتی تھی۔(مسلم)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 651)
''(و) لا يكره (صلاة إلى ظهر قاعد) أو قائم ولو (يتحدث)، إلا إذا خيف الغلط بحديثه''۔

''(قوله: إلى ظهر قاعد إلخ) قيد بالظهر احترازاً عن الوجه، فإنها تكره إليه، كما مر، وفي قوله: يتحدث إيماء إلى أنه لا كراهة لو لم يتحدث بالأولى، ولذا زاد الشارح " ولو " وفي شرح المنية: أفاد به نفي قول من قال بالكراهة بحضرة المتحدثين، وكذا بحضرة النائمين ، وما روي عنه عليه الصلاة والسلام: «لا تصلوا خلف نائم ولا متحدث» فضعيف. وصح عن عائشة رضي الله عنها قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من صلاة الليل كلها وأنا معترضة بينه وبين القبلة، فإذا أراد أن يوتر أيقظني فأوترت» ، روياه في الصحيحين، وهو يقتضي أنها كانت نائمةً، وما في مسند البزار أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «نهيت أن أصلي إلى النيام والمتحدثين»، " فهو محمول على ما إذا كانت لهم أصوات يخاف منها التغليط أو الشغل، وفي النائمين إذا خاف ظهور شيء يضحكه. اهـ''.

صحيح مسلم (1/ 366)
'' عن عروة، عن عائشة: «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي من الليل وأنا معترضة بينه وبين القبلة، كاعتراض الجنازة ۔ »

 عن عائشة، قالت: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي صلاته من الليل كلها وأنا معترضة بينه وبين القبلة، فإذا أراد أن يوتر أيقظني فأوترت۔»''

صحيح ابن خزيمة ط 3 (1/ 419)

'' عن عائشة قالت:كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وأنا معترضة بين يديه، فإذا أردت أن أقوم أنسل من قبل رجلي.

عن عائشة قالت:ربما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالليل وسط السرير وأنا على السرير بينه وبين القبلة، تكون لي الحاجة  فأنسل من قبل رجلي السرير كراهة أن أستقبله بوجهي''.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں