بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان پر مسجد بنانے کا حکم


سوال

قبرستان پر مسجد بنانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر مقبرہ کسی کا مملوک ہے تو اس بارے میں اس کی اجازت ضروری ہے، اگر اس کی اجازت ہو تو اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے۔

اور اگر  وقف قبرستان ہے تو اس میں   مسجد  نہیں بنائی جاسکتی، اس لیے  کہ یہ جگہ خاص  قبرستان  کے لیے ہی وقف کی گئی ہے۔ البتہ  اگر قبریں بوسیدہ ہوچکی ہوں اور آئندہ اس میں تدفین کی ضرورت نہ ہو اور مسجد کو توسیع کی ضرورت بھی ہو تو اس کی گنجائش ہے کہ مسجد یہاں تعمیر کرلی جائے، اگر کھدائی کے دوران بوسیدہ ہڈیاں وغیرہ نکلیں تو ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں کہیں دفنا دیا جائے۔

"قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمین عفت، فبنی قوم فیها مسجدًا لم أر بذٰلک بأسًا؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاهم، لا یجوز لأحد أن یملکها، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیها جاز صرفها إلی المسجد؛ لأن المسجد أیضًا وقف من أوقاف المسلمین لا یجوز تملیکه لأحد، فمعناهما واحد. وأما المقبرة الداثرة إذا بُني فیها مسجد لیصلي فیها، فلم أر فیه بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناهما واحد".

(عمدة القاري شرح صحیح البخاري / باب هل تنبش قبور مشرکي الجاهلیة ویتخذ مکانها مساجد)

"الثامنة في وقف المسجد: أیجوز أن یبنی من غلته منارة؟ قال في الخانیة معزیاً إلی أبي بکر البلخي: إن کان ذلك من مصلحة المسجد بأن کان أسمع لهم، فلابأس به".

(البحر الرائق، کتاب الوقف، رشیدیه ۵/۲۱۵)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں