بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قابلِ تقسیم مکان کی تقسیم


سوال

فتویٰ نمبر 144010200655 میں سوال نمبر 2 کے جواب میں فرمایا "(۲)  دونوں چھوٹے بھائی اگر سب کی اجازت سے اس مکان میں رہ رہے ہیں تو ان کا رہنا وہاں درست ہے ، نیز اگر سب بہن بھائی فلیٹ کو بیچے بغیر چھوٹے بھائیوں کو دینا چاہیں  تو اگر مکان قابلِ تقسیم  نہیں ہے تو حصوں کے تعین کے بعد چھوٹے بھائیوں کو دینا درست ہو گا" تو عرض یہ کہ حصوں کا تعین کس طرح کیا جائے گا دو کمروں کا فلیٹ ہے جب کہ اس کی موجودہ مالیت پندرہ لاکھ ہے۔  واضح رہے کہ وارثوں میں سے مرحوم کی زوجہ یعنی مرحوم کی اولاد کی والدہ بھی انتقال کر گئیں ہیں،  اب وارثوں میں چھ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ جو گھر اپنے دونوں بھائیوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور وہ مکان دو کمروں پر مشتمل ہے، اب چوں کہ وہ مکان تقسیم کر نے کے بعد اس طرح قابلِ انتفاع نہیں رہے گا جیسا کہ وہ ابھی ہے اس لیے اس مکان کے ہبہ کی صورت  یہ ہے کہ اس مکان کو فیصد کے اعتبار سے تقسیم کر کے دونوں بھائیوں کو دے دیا جائے، مثلاً یوں تقسیم کر لیا جائے کہ اس مکان میں ہر ایک بھائی کا پچاس پچاس فیصد ہے، اس طرح اس مکان کو تقسیم کرنا درست ہو جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690):
"وتتم الهبة (بالقبض) ...... (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعاً به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 692):
"(قوله: بعد أن يقسم) ويشترط في صحة هبة المشاع الذي لايحتملها أن يكون قدراً معلوماً".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں