بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فلموں کی ترویج میں شرکت کا حکم


سوال

میرا ایک ہی بیٹا ہے چوبیس سال کا. اس کا سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا بزنس ہے. اس کے بہت سارے کلائنٹ ہیں جس میں ایک کلائنٹ کیپری سینیما ہے.  فلموں کی مارکیٹنگ اور شیڈیول وغیرہ یہ سب بھی کرتے ہیں، اس کے علاوہ اب شارٹ فلم بھی بنانا شروع کر دی ہے. کیا اس قسم کے کاموں سے آنے والی آمدنی حلال ہے؟

جواب

فلموں کا کام کرنا یا اس کی ترویج میں حصہ لینا جائز نہیں اور نہ ہی اس کی آمدنی حلال ہے، پس اگر بیٹےکا اکثر کام اسی قسم کا ہے تو آپ کے لیے اس کی آمدنی استعمال کرنا حلال نہیں ہے۔ اور بیٹے کے لیے بہرصورت فلمی کی ترویج میں معاونت کرنا اور اس کا معاوضہ لینا جائز نہیں ہے۔ 

{ومن الناس من یشتری لهو الحدیث لیضل عن سبیل الله بغیر علم ویتخذها هزوا اولئک لهم عذاب مهین} [لقمان:6]

ترجمہ: اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو باطل قسم کی باتیں خریدتے ہیں تاکہ گم راہ کریں اللہ کی راہ سے بغیر علم کے، اور اسے (اللہ کے راستے کو) مذاق بناتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔

{ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشة فی الذین اٰمنوا لهم عذاب الیم فی الدنیا والاٰخرة}  [النور:19]

ترجمہ: بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے درمیان بے حیائی پھیل جائے، ان کے لیے درد ناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں۔ 

"آکل الرباء وکاسب الحرام لو أهدی إلیه أو أضافه وغالب ماله حرام، لایقبل ولا یأکل مالم یخبره أن ذلک المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن کان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هدیته والأکل منها، کذا في الملتقط". (الهندیة: ۵/۳۴۳)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں