بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فلاحی کاموں میں کھال کا استعمال


سوال

1۔عرض یہ کہ ہمارے میں علاقہ میں اپنی مدد آپ کے تحت ایک جماعت نے کام شروع کیا ہے ، جس کا کوئی تعلق کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے نہیں ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ آج کل ایک میسج تمام سوشل میڈیا پر چل رہا ہے کہ قربانی کی کھالیں ڈیم فنڈز جمع کرائی جائیں، کیا یہ کرنا جائز ہے ؟

2۔ اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے علاقے کی جماعت میں یہ باتیں مشورے میں زیر غور ہیں کہ  قربانی کی کھالیں جمع کی جائیں جس کا مصرف علاقہ کی فلاح وبہبود ہے۔ ان معاملات میں شریعت کے احکامات ہیں مطلع فرمادیں۔

جواب

1۔ قربانی کے جانور کی کھال جب تک  فروخت نہ کی جائے قربانی کرنے والے کو اس میں تین طرح کے اختیارات حاصل ہیں:

1۔یاقربانی کرنے والا خود اس کھال کو اپنے استعمال میں لائے۔

2۔یا کسی کو ہدیہ کے طور پر دے دے۔

3۔یا فقراء اور مساکین پر صدقہ کردے۔

تاہم اگر قربانی کی کھال نقد رقم یا کسی چیز کے  عوض فروخت کردی گئی تو اس کی قیمت  صدقہ کرنا واجب ہے، اور کھال کی قیمت کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے۔

اگر ڈیم بنانے کے لیے کھال دی گئی  تو جن کو دی وہ وکیل ہوں گے اور وہ ڈیم کے لیے اسے فروخت کریں گے تو وہ رقم صدقہ کرنا ضروری ہوجائے گا اور اس صدقہ کا مصرف وہی صدقاتِ واجبہ اور زکوۃ والا ہے۔ لہذا تعمیراتی کاموں میں  قربانی کے جانور کی کھال کا استعمال جائز نہیں ۔

البتہ اگر یہ رقم کسی غریب کو دی جائے اور وہ بطیبِ خاطر (دلی رضامندی سے بغیر دباؤ کے) اس رقم کو ڈیم کی تعمیر کے لیے دےدے تو اس میں ممانعت نہیں۔

2۔آپ نے تفصیل ذکر نہیں کی کہ علاقہ کی فلاح وبہبود میں کھالوں کے صرف کرنے کاکیاطریقہ کارہوگا؟اور آیافلاح وبہبودسے مراد علاقہ کی ترقی ہے یا علاقے میں غریب لوگوں کے ساتھ تعاون مراد ہے؟  اگر سوال سے مقصود  رفاہی کاموں،شفاخانوں اورتعمیراتی کاموں  وغیرہ پر کھال صرف کرنا ہے تو یہ درست نہیں۔ اور اگر کھال فروخت کرنے کے بعد اس کی رقم زکاۃ کے مصارف میں شرعی احکام کے مطابق  (یعنی مسلمان فقراء کو بلاعوض بطورِ ملکیت دے کر) صرف کی جائے گی تو جائز ہوگا۔ فقط واللہ علم


فتوی نمبر : 143909201621

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں