بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرشتوں جیسے نام بچوں کے رکھنا


سوال

حدیث پاک میں آتا ہے کہ: "تسموا بأسماء الأنبیاء ولا تسموا بأسماء الملائکۃ" تو کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ فرشتوں جیسے نام بچوں یا بچیوں کے لیے رکھنا جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

مذکورہ بالاحدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب''التاریخ الکبیر''میں نقل کیاہے،اور پھرلکھاہے:''فی اسنادہٖ نظر''کہ اس حدیث کی سندمیں کلام ہے۔(التاریخ الکبیر5/35،ط:بیروت) لہٰذا سندکے اعتبارسے یہ حدیث ضعیف ہے،تاہم حدیث کاجومضمون ہے کہ "انبیاء علیہم السلام کے ناموں پر نام رکھاجائے اورفرشتوں کے ناموں پرنام رکھنے سے بچاجائے"،اس حدیث کی بناپربعض اہل علم سے فرشتوں کے ناموں پر نام رکھنے کی کراہت منقول ہے۔اور اکثر علماء کے نزدیک فرشتوں کے ناموں پر نام رکھنادرست ہے، لیکن اس بات کاخدشہ ہے کہ لوگ مذاق نہ بنادیں؛ اس لیے اس سے گریز بہترہے۔

 نام رکھنے سے متعلق دیگر احادیث مبارکہ میں انبیاء علیہم السلام کے ناموں پرنام رکھنے کی صراحت کی گئی ہے،چناں چہ سنن نسائی کی روایت میں ہے:’’ حضرت ابووہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگ (بچوں کے نام) حضرات انبیاء علیہم السلام کے نام پر رکھو۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ، عبدالرحمن ہیں۔ ‘‘اس لیے  انبیاء علیہم السلام ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورصلحائے امت کے ناموں پر نام رکھنازیادہ بہترہے۔

نیز فرشتوں کے ناموں پر لڑکیوں کانام رکھنا بھی درست نہیں؛ کیوںکہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو مؤنث نہیں بنایا ہے، فرشتوں کامؤنث(لڑکیاں)ہونایہ جاہلیت کا عقیدہ تھا،قرآن کریم نے اسے سختی کے ساتھ رد کیا ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143804200003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں