بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی سنت کی قضا کب تک کی جا سکتی ہے؟


سوال

فجر کی سنت کی قضا کب تک کی جاسکتی ہے؟

جواب

اگر  فجر کی نماز (فرض اور سنتیں) قضا ہو جائے یا وقت کم ہونے یا جماعت چھوٹنے کے اندیشے کی وجہ سے فرض نماز پڑھ لی جائے اور سنتیں رہ جائیں تو اسی دن اشراق کا وقت ہونے سے لے کر زوال سے پہلے قضا کر نے کی صورت میں سنتوں کی قضا بھی کرنی چاہیے، اور  اس دن کے زوال کے بعد صرف فرض کی قضا  کی جائے گی، سنت کی قضا نہیں کی جائے گی۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57):

"(ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل،  (قوله: ولا يقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لا يقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلا تقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لايقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده كما ذكره في الكافي إسماعيل". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں