بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی سنت رہ جائے تو کب اس کی قضا کرسکتے ہیں؟


سوال

اگر کوئی فجر کے بعد فوراً  سنت پڑھ لے توکیاایسا کرنا درست ہے؟  اور سنت کی ادائیگی ہوجائے گی یا نہیں؟

جواب

سنتوں کی مستقل طور پر قضا نہیں ہے، البتہ فجر کی سنتوں کی تاکید کی وجہ سے یہ حکم ہے کہ جس دن فجر کی سنتیں تنہا یا فجر کی فرض نماز کے ساتھ رہ جائیں تو اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد سے لے کر اسی دن زوال کے وقت تک فجر کی سنتیں ادا کی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں فجر کی فرض نماز کے بعد اشراق کا وقت ہونے سے پہلے فجر کی سنتیں ادا کرنا درست نہیں ہے، اشراق کا وقت داخل ہونے کے بعد سے لے کر زوال تک اگر سفر کے دوران سنت ادا کرنے کا موقع مل جائے تو ادا کرلی جائیں۔ اگرفجر کی فرض نماز کے متصل بعد سنت کی نیت سے دو رکعات ادا کیں تو یہ مکروہ تھا، اگر ایسا ہو تو اسی دن اشراق کا وقت ہونے کے بعد زوال سے پہلے فجر کی دو رکعت سنت کی نیت سے ادا کرلینی چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57):
"(ولايقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل. 

(قوله: ولايقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لايقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر؛ فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال، وما إذا فاتت وحدها فلاتقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال، كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لايقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده، كما ذكره في الكافي إسماعيل".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں