بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر شرعی امور پر مشتمل تقریبات میں شرکت کا حکم


سوال

غیر شرعی رسومات جو آج کل شادی بیاہ اور میت کے موقع پر رائج ہیں ان میں شرکت کا کیا حکم ہے? عموماً ان میں شرکت نہ کرنے کو قطع رحمی قرار دیا جاتا ہے، ان محافل میں نہ تو پردے کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی دیگر شرعی احکامات کا، منگنی کے موقع پر نا محرم کا ایک دوسرے کو رسماً انگوٹھی پہنانا، مخلوط اجتماع، موسیقی، شور ہنگامہ جو سنت سے بالکل ثابت نہیں، راہ نمائی درکار ہے۔

جواب

دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں غمی و خوشی ہر طرح کے حالات کے لیے مستقل احکامات دیے گئے ہیں،  اور ایک مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی اپنے دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ اپنی ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے، چناں چہ شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر شرعی پردے کا خیال نہ رکھنا، مخلوط اجتماع کرنا، موسیقی اور شور ہنگامہ کرنا، منگنی کے موقع پر نامحرم کا ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا، اسی طرح غم کے موقع پر غیر شرعی رسومات و بدعات (مثلاً نوحہ، تیجہ، چالیسواں وغیرہ)  کا ارتکاب کرنا، یہ سب ناجائز ہے۔

ایسی تقریبات جو فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ ) کا ارتکاب کیا جارہا ہو ان میں شرکت کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوگا تو اس صورت میں ہرگز اس تقریب میں شرکت کے لیے نہیں جانا چاہیے، البتہ اگر مدعو شخص کوئی عالم و مقتدا ہو اور اسے امید ہو کہ وہ اس تقریب میں جاکر معصیت کے ارتکاب کو روک سکتا ہے تو اسے جانا چاہیے؛ تاکہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گناہ سے بچ جائیں۔

 اور اگر پہلے سے معلوم نہ ہو کہ وہاں کسی معصیت کا ارتکاب ہورہا ہے، بلکہ وہاں جاکر معلوم ہو تو اگر اندر جانے سے پہلے معلوم ہوجائے تو واپس لوٹ آئے،اندر نہ جائے، البتہ اگر اندر جاکر اس معصیت کو بند کرنے پر قادر ہو تو اندر جاکر اس معصیت کو بند کروادے۔

اور اگر اندر داخل ہونے کے بعد معصیت کے ارتکاب کا علم ہو اور معصیت کو بند کرنے پر قدرت بھی نہ ہو تو مدعوشخص اگر عالم و مقتدا ہو تو وہ وہاں نہ بیٹھے، بلکہ اٹھ کر واپس چلا جائے، کیوں کہ اس کے وہاں بیٹھنے میں علم اور دین کا استخفاف (اہانت اور توہین) ہے، البتہ اگر مدعو شخص عام آدمی ہو تو وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کی گنجائش ہے۔

لیکن ایسی تقریبات جو بدعت اور کفار کی مشابہت ہونے کی وجہ سے فی نفسہ ناجائز ہوں (مثلاً تیجہ، دسواں، چالیسواں وغیرہ) تو ان میں بالکل بھی شرکت نہیں کرنی چاہیے، نہ عالم و مقتدا  کو اور نہ ہی عام آدمی کو۔

چوں کہ صلہ رحمی اور قطع رحمی شرعی اصطلاحات ہیں، اس لیے صلہ رحمی وہ ہوگی جو شریعت کی نظر میں صلہ رحمی ہو اور قطع رحمی بھی وہی کہلائے گی جو شریعت کی نظر میں قطع رحمی ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص شرعی حکم کے پیش نظر اس طرح کی کسی تقریب یا رسوم میں شرکت نہ کرے تو اسے قطع رحمی نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی اسے قطع رحمی کا گناہ ملے گا ، بلکہ ایمان کا تقاضہ ہونے کی وجہ سے اسے اس پر ثواب بھی ملے گا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 128):

"رجل دعي إلى وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لا يخلو من أحد وجهين: إما أن يكون عالماً أن هناك ذاك، وإما إن لم يكن عالماً به، فإن كان عالماً فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب؛ لأن إجابة الدعوى مسنونة قال النبي عليه الصلاة والسلام : «إذا دعي أحدكم إلى وليمة فليأتها». وتغيير المنكر مفروض فكان في الإجابة إقامة الفرض ومراعاة السنة، وإن كان في غالب رأيه أنه لا يمكنه التغيير لا بأس بالإجابة؛ لما ذكرنا أن إجابة الدعوة مسنونة ولاتترك السنة لمعصية توجد من الغير، ألا ترى أنه لا يترك تشييع الجنازة وشهود المأتم وإن كان هناك معصية من النياحة وشق الجيوب ونحو ذلك؟ كذا ههنا.

وقيل: هذا إذا كان المدعو إماماً يقتدى به بحيث يحترم ويحتشم منه، فإن لم يكن فترك الإجابة والقعود عنها أولى، وإن لم يكن عالماً حتى ذهب فوجد هناك لعباً أو غناءً فإن أمكنه التغيير غيّر، وإن لم يمكنه ذكر في الكتاب، وقال: لا بأس بأن يقعد ويأكل، قال أبو حنيفة - رضي الله عنه -: ابتليت بهذا مرةً، لما ذكرنا: أن إجابة الدعوة أمر مندوب إليه فلا يترك لأجل معصية توجد من الغير، هذا إذا لم يعلم به حتى دخل فإن علمه قبل الدخول يرجع ولا يدخل، وقيل: هذا إذا لم يكن إماماً يقتدى به فإن كان لا يمكث بل يخرج؛ لأن في المكث استخفافاً بالعلم والدين وتجرئةً لأهل الفسق على الفسق، وهذا لا يجوز، وصبر أبي حنيفة - رحمه الله - محمول على وقت لم يصر فيه مقتدى به على الإطلاق، ولو صار لما صبر، ودلت المسألة على أن مجرد الغناء  معصية، وكذا الاستماع إليه، وكذا ضرب القصب والاستماع إليه، ألا ترى أن أبا حنيفة - رضي الله عنه - سماه ابتلاءً". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں